Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے لوگوں کھاؤ پیو تم ان چیزوں میں سے جو زمین میں ہیں اس شرط پر کے ساتھ کہ وہ حلال اور پاکیزہ ہوں اور شیطان کے نقش قدم پر نہیں چلنا کہ بیشک وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے2
451 حلال اور پاکیزہ چیزوں کے کھانے کا حکم : حلال یہ کہ اس کے اصل وجود میں کوئی ایسی خرابی و قباحت نہ پائی جاتی ہو، جس کی بنا پر شریعت مطہرہ نے اس کو حرام و ممنوع قرار دے دیا ہو، کہ ایسی حرام و ممنوع چیزوں کا اخذ و تناول جائز نہیں ہوگا، جیسے خمر، خنزیر، میتہ اور دم مسفوح وغیرہ۔ اور طیب و پاکیزہ سے مراد یہ ہے کہ ان کے حصول واکتساب میں کسی حرام و ممنوع فعل کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو، جیسے چوری، ڈکیتی، غصب، دھوکہ، اور سود و قمار وغیرہ ذرائع سے حاصل کردہ مال۔ پس جو اشیاء حلال و طیب ہوں کہ ان کے اصل وجود میں بھی کوئی خرابی نہ ہو، اور ان کے حصول میں بھی کسی فعل ممنوع اور برائی کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو، ان سے استفادہ کرو۔ انہیں کھاؤ، برتو اور حضرت واھب مطلق ۔ جل وعلا ۔ کا دل و جان سے شکر بجا لاؤ۔ سبحان اللہ ! کیسی عمدہ اور پاکیزہ تعلیمات ہیں اس دین متین کی، جو کہ عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق، اور دارین کی سعادت و سرخروئی کی کفیل وضامن ہیں۔ مگر دنیا ہے کہ ان سے منہ پھیر کر اور ان سے محروم ہو کر طرح طرح کی ظلمتوں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پڑی ہے اور ان کو اس کی کوئی فکر و پرواہ نہیں کہ اس کا نتیجہ وانجام کیا ہونے والا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے لوگ ناصح کی نصیحت کو بھی سننے اپنانے اور اس پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ـ ۔ وََالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ 452 شیطان کے نقش قدم سے بچنے کی تعلیم و تلقین : کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور ایسا کھلا دشمن کہ اس نے اپنی دشمنی کو چھپایا نہیں، بلکہ اعلانیہ اور قسم کھا کر اور حضرت حق ۔ جل جلالہ ۔ کے سامنے تحدی اور چیلنج کے طور پر کہا کہ تیری عزت کی قسم، میں ان ۔ بنی آدم ۔ کو گمراہ کر کے چھوڑونگا، بجز تیرے خاص اور چیدہ بندوں کے کہ ان پر میرا زور اور جادو نہیں چل سکے گا { فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْْ اَجْمَعِیْنَََ ، اِلَّا عِبَادَکَََ مِنْہُمُ الْمُخْلََصِیْنَ } ۔ (صٓ۔ 82 ۔ 83) سو ایسے کھلے دشمن کی پیروی کرنا اور اس کے نقش قدم پر چلنا انہی لوگوں کا کام ہوسکتا ہے جن کی مت ماری گئی اور جن کی عقلوں پر پردہ پڑگیا ۔ وََالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی سے مراد ان مشرکانہ توہمات کو اپنانا اور اختیار کرنا ہے، جن کی بناء پر یہ مشرک لوگ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی حلال اور پاکیزہ چیزوں کو حرام ٹھہراتے ہیں، جیسا کہ سورة انعام کی آیت نمبر 14 1 تا 125 میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور اس کے علاوہ دوسرے مختلف مقامات پر بھی اس کو بیان فرمایا گیا ہے۔ سو شیطان کے ایسے تمام ہتھکنڈوں سے ہمیشہ بچتے رہا کرو۔ کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس کی پیروی کا انجام دائمی ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذ باللہ -
Top