Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
اور کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اچھی لگتی ہیں آپ کو ان کی چکنی چپڑی باتیں دنیاوی زندگی کے بارے میں2 اور وہ اپنی نیک نیتی پر گواہ بناتا ہے اللہ کو حالانکہ وہ پرلے درجے کا دشمن ہے حق اور اہل حق کا
567 اہل باطل کی ملمع سازی کا ایک نمونہ و مظہر : " فی الحیاۃ الدنیا " کے اس کلمات کریمہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ایسے لوگوں کی ان ملمع سازیوں کا جادو اسی دنیا میں چل سکتا ہے اور بس، کہ یہاں اصل حقائق پر پردہ پڑا ہوا ہے، جس کی بناء پر یہاں دھوکہ و فریب سب کچھ چلتا ہے، مگر آخرت میں ایسوں کی کوئی منطق کارگر نہ ہو سکے گی، کہ وہ کشف حقائق کا جہاں ہوگا اور وہاں پر ہر شی اپنی اصل شکل میں سامنے آ جائیگی۔ اور دوسرا مطلب اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ ایسے لوگوں کی یہ باتیں جو دنیاوی زندگی کے بارے میں ہوتی ہیں، وہ بڑی چکنی چپڑی اور دلوں کو لبھانے والی ہوتی ہیں۔ اور یہ اس لئے کہ ان لوگوں کا اوڑھنا بچھونا اور مطمح نظر ہی یہ دنیا اور اس کے مادی اور وقتی فوائد و منافع ہوتے ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا ۔ { ذٰلِکَ مَبْلَغُہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ } ۔ (النجم :29- 30) اور اللہ پاک کا عام قانون و ضابطہ یہی ہے کہ انسان جدھر بھی جانا چاہے اللہ تعالیٰ اس کی باگیں ادھر ہی ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ اپنے ارمان پورے کرلے اور اپنے انجام کا سامان خود کرلے، مگر راہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی راہوں پر چلنے کا نتیجہ و انجام بہرحال جہنم ہے، جیسا کہ ایک اور مقام پر ایسے شخص کیلئے ارشاد فرمایا گیا (النسائ۔ 1 15) اور ابنائے دنیا جب دنیا ہی کو اپنا مقصد حیات اور مطمح نظر بنا دیتے ہیں، اور وہ اسی کیلئے جیتے اور اسی کیلئے مرتے ہیں، تو اللہ پاک انکو ان کے اپنے اختیار کفرو ضلال اور ان کی اپنی خواہش و چاہت کے مطابق، اور ان کی کوششوں اور محنتوں کے نتیجے میں، آخرت سے محروم کرکے دنیا ہی کے راستے ان پر کھول دیتا ہے، جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر ابنائے دنیا کی تاریخ کے ضمن میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَکَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْن } ۔ (العنکبوت : 38) یعنی دنیاوی اعتبار سے وہ لوگ واقعی بڑے چالاک اور ہوشیار تھے۔ اور یہی بات ہر زمانے کی طرح آج بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، کہ ابنائے دنیا، دنیا کی تعمیر و ترقی، زیب وزینت، اور اس کی ظاہری ٹیپ ٹاپ، اور اس کے مادی تقاضوں کی تکمیل کیلئے بہت کچھ جانتے اور کرتے ہیں، مگر آخرت کی اپنی اصل حقیقی اور دائمی زندگی کے تقاضوں سے ایسے لوگ یکسر غافل اور بیخبر ہوتے ہیں ۔ اِلا مَا شَائَ اللّٰہُ ۔ بہرکیف آیت کریمہ میں ارشاد فرمودہ کلمات کریمہ " فِی الْحَیٰوۃ الدُّنْیَا " میں کلمہئ " فِیْ " ظرفیّہ بھی ہوسکتا ہے اور اجلیہ بھی۔ اور دونوں صورتوں میں دو مفہوم بنتے ہیں (جامع البیان وغیرہ) ۔ اور یہ دونوں ہی صحیح، اور اپنی اپنی جگہ بہت اہم اور مہتم بالشان ہیں۔ 568 اہل باطل کی اصل دشمنی حق کے ساتھ : کہ ایسوں کی زندگی کا اصل مقصد نفس کی پیروی اور خواہش کی پرستش ہوتا ہے، اور حق ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے، جس کی بناء پر ان کی اصل دشمنی اور مخاصمت حق اور حق والوں ہی سے ہوتی ہے۔ پس تم لوگ ایسوں کی ان ظاہری چکنی چپڑی باتوں کے دھوکے میں نہیں آنا، کہ ایسے لوگ خود دھوکے اور فریب میں پڑے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ایسا شخص اپنی باتوں کا اعتبار دلانے کیلئے اپنے دل کی نیت پر اللہ کو گواہ بناتا اور قسمیں کھاتا ہے، اور یہ منافق انسان کی ایک عمومی خصلت اور نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنا اعتبار قائم کرنے کیلئے بات بات پر قسم کھاتا ہے۔ اس کے پاس سچائی کی دولت اور کردار کی پونجی چونکہ ہوتی نہیں، اس لیے وہ ہر قدم پر قسمیں کھا کھا کر اپنا اعتبار قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور اس کے دل میں چور موجود ہوتا ہے کہ لوگ میری باتوں پر اعتبار نہیں کرتے۔ جبکہ مومن صادق اپنے ایمان و یقین کی بنا پر ہمیشہ مطمئن رہتا ہے۔ سو یہ اس کو ایک نقد انعام ملتا رہتا ہے ۔ والحمد للہ جل وعلا -
Top