Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 205
وَ اِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْهَا وَ یُهْلِكَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ
وَاِذَا : اور جب تَوَلّٰى : وہ لوٹے سَعٰى : دوڑتا پھرے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین لِيُفْسِدَ : تاکہ فساد کرے فِيْهَا : اس میں وَيُهْلِكَ : اور تباہ کرے الْحَرْثَ : کھیتی وَ : اور النَّسْلَ : نسل وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : ناپسند کرتا ہے الْفَسَادَ : فساد
اور جب وہ پیٹھ پھیرتا ہے تو اس دوڑ دھوپ میں لگ جاتا ہے کہ فساد مچائے زمین میں اور ہلاک و تباہ کر ڈالے کھیتی اور نسل کو اور اللہ جس کو ایسا شخص اپنی نیک نیتی پر گواہ بناتا ہے وہ کبھی پسند نہیں فرماتا فساد کو3
569 " تَوَلّٰی " کے دو معنی و مطلب : پیٹھ پھیرتا ہے یعنی مجلس سے، یہ اس صورت میں ہے جبکہ " تولیٰ " کو " ولی " سے ماخوذ مانا جائے، جس کے معنی پھرنے اور لوٹنے کے آتے ہیں۔ اور دوسرا احتمال اس میں یہ بھی ہے کہ یہ " وَلایَۃٌ " سے ماخوذ ہو، جس کے معنی والی اور حاکم بننے کے ہیں، یعنی جب ایسا شخص کسی علاقے کا والی اور حاکم بنتا ہے اور کرسی اقتدار پر بیٹھتا ہے، تو ایسے اور ایسے کام کرتا ہے۔ (جامع البیان، التحریر والتنویر وغیرہ) ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اس طرح کے شخص کی باتیں جب وہ تمہارے سامنے ہوتا ہے تو بڑی دل لبھانے والی ہوتی ہیں، لیکن تمہارے سامنے سے ہٹنے کے بعد یا کرسی اقتدار پر بیٹھنے کے بعد ایسے شخص کی ساری بھاگ دوڑ اور تگ و دو فساد فی الارض کیلئے ہوتی ہے، اور فساد فی الارض سے مراد اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی مخالفت اور مزاحمت کرنا ہے، کیونکہ زمین کے تمام تر امن وامان اور عدل و انصاف کا مدارو انحصار اس بات پر ہے کہ اللہ کے بندے اسی کی عبادت و بندگی اور اطاعت و فرمانبرداری کریں جو کہ اس ساری کائنات کا بلاشرکت غیرے خالق ومالک اور حاکم و فرمانروا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ - 570 حرث و نسل کی انسانی معاشرے میں اہمیت : سو حرث و نسل دو اہم بنیادیں ہیں جن پر انسانی معاشرے کا مدارو انحصار ہے۔ یعنی کھیتوں کی پیداوار، اور نسل یعنی حیوانی دولت کو تباہ کردے۔ اور یہ دو ہی ایسی بنیادی چیزیں ہیں، جن پر انسانی زندگی اور معاشرہ کا دار و مدار اور انحصار ہے۔ سو ان کی تباہی دراصل انسان اور پورے انسانی معاشرے کی خرابی اور تباہی کا سامان کرنا ہے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ ۔ مگر ظالم انسان کل کی طرح آج بھی یہی کر رہا ہے۔ کھیتوں کو جلایا جا رہا ہے، ان کو زہر آلود کیا جا رہا ہے، جانوروں کی بیخ کنی کی جا رہی ہے، جگہ جگہ اور طرح طرح سے اس کے روح فرسا مظاہر دیکھنے میں آ رہے ہیں، خواہ وہ بوسنیا ہر زگوینا ہو، یا افغانستان، یا فلسطین یا کشمیر یا بمبئی اور دلی وغیرہ، ہندوستان کے مختلف شہر ہوں یا افریقہ کے یوگنڈا اور راونڈا وغیرہ ممالک۔ ہر جگہ اور ہر طرف ایک آگ ہے جو لگی ہوئی ہے، کھیتوں اور آبادیوں کو جلایا جا رہا ہے، اور انسانی ضروریات کا سامان جگہ جگہ اور طرح طرح سے بھسم کیا جا رہا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ شان نزول کے اعتبار سے اگرچہ یہ آیات کریمہ اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئیں، جو کہ اس تصویر کا اولین مظہر اور اس کا ایک اہم مصداق تھا، جیسا کہ تفسیری روایات میں وارد و مذکور ہے لیکن الفاظ کے عموم کے اعتبار سے یہ قیامت تک آنے والے اس قماش کے سب ہی لوگوں کیلئے عام، اور ان سب کو شامل ہیں۔ نیز یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ لفظِ " حرث و نسل " کا اطلاق جس طرح اس ظاہری کھیتی وغیرہ پر ہوتا ہے اسی طرح اس کا اطلاق عورت پر بھی ہوتا ہے، کیونکہ یہ بھی ایک عظیم الشان کھیتی ہے جس سے نسل انسانی جیسی عظیم الشان پیداوار حاصل ہوتی ہے، اور جو انسانی زندگی کا حاصل اور اصل متاع ہے۔ تو ایسے مفسد لوگ اس عظیم الشان کھیتی اور نسل انسانی کی تباہی کیلئے بھی تگ و دو کرتے ہیں، اور طرح طرح سے ان کی خرابی اور بگاڑ کی کوشش کرتے ہیں، جس کی ایک بڑی کھلی اور مہلک صورت فحاشی اور بےحیائی کے وہ وسائل و ذرائع ہیں، جو آج اپنے عروج و شباب پر ہیں، اور جن سے اخلاق و ایمان کی دولت کو تباہ کرنے کیلئے طرح طرح سے کام لیا جا رہا ہے، اور خاص کر عورتوں اور جوان نسل کے اخلاق کو بگاڑنے کے سلسلہ میں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اخلاقیات کی اصل اور اساس یعنی شرم و حیا کو ختم کرنے کیلئے طرح طرح کے شیطانی وسائل سے کام لیا جارہا ہے، کیونکہ شرم و حیا کی دیوار ہی وہ دیوار ہے جو فواحش و منکرات کو روکتی ہے اور یہ دیوار اگر گرجائے تو پھر خواہشات و منکرات روکنے کیلئے کوئی آڑ باقی نہیں رہ جاتی۔ اسی حقیقت کو لسان نبوت سے اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ پہلی نبوت سے جو کلام متوارث چلا آرہا ہے یہ ہے کہ جب شرم و حیا ختم ہوجائے تو پھر تم جو مرضی کرو، اسی کو فارسی میں کہتے ہیں " بےحیا باش و ہرچہ خواہی کن " ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو شرم و حیا ایک عظیم الشان جوہر ہے جو انسان کو بہت سے برائیوں سے روکتا اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔ 571 اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتا : پس جو ایسا فسادی اور شرانگیز ہوگا وہ اللہ کا محبوب کس طرح ہوسکتا ہے ؟۔ لہذا ایسے شخص کا اللہ کو اپنی نیک نیتی پر گواہ بنانا بھی ایک طرح کا فریب اور فراڈ ہے۔ پس تم اس طرح کے لوگوں کی ان باتوں میں کبھی نہیں آنا، نہ یہ بحالت موجودہ اصلاح کرنے کے لائق ہوسکتے ہیں، اور نہ ہی یہ اللہ پاک کے محبوب اور پیارے بن سکتے ہیں، الا یہ کہ یہ اپنی اس روش کو بدل دیں اور اخلاق فاسدہ کی بجائے اخلاق فاضلہ اور خصال حمیدہ کو اپنالیں۔ سو مفسد بظاہر کتنی ہی چکنی چپڑی اور دل لگی کی باتیں کریں، وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی محبت کا دم بھی کیوں نہ بھرتے ہوں، وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں بہرحال کوئی مرتبہ اور مقام نہیں حاصل کرسکتے، کہ ایسے لوگ اپنے طرز عمل سے اس فساد کو ہوا دے رہے ہیں، جسکے نتیجے میں تمام انسانیت کی تباہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی پیدا کردہ اس دنیا کی فلاح و بہبود اور اس کی بہتری چاہتا ہے۔ پھر وہ اس میں فساد اور مفسدین کو کس طرح پسند فرما سکتا ہے ؟ ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور فساد کی سب سے بڑی بنیاد کفر و شرک ہے ۔ والعیاذ باللہ
Top