Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 211
سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
سَلْ : پوچھو بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ : بنی اسرائیل كَمْ : کس قدر اٰتَيْنٰھُمْ : ہم نے انہیں دیں مِّنْ : سے اٰيَةٍ : نشانیاں بَيِّنَةٍ : کھلی وَ : اور مَنْ : جو يُّبَدِّلْ : بدل ڈالے نِعْمَةَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جو جَآءَتْهُ : آئی اس کے پاس فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
پوچھو بنی اسرائیل سے کہ ہم نے کتنی ہی کھلی نشانیاں عطا کیں ان ناشکرے بےانصافوں کو اور جو کوئی اللہ کی نعمت کو بدلے گا بعد اس کے کہ وہ اس کے پاس پہنچ گئی تو اسے اس کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہوگا کہ بیشک اللہ بڑا ہی سخت عذاب دینے والا ہے2
579 بنی اسرائیل کی نشانیوں کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے کتنی ہی کھلی نشانیاں عطا کیں بنی اسرائیل کو تاکہ حق پوری طرح ان کے سامنے واضح ہوجائے، اور اس کی روشنی میں یہ لوگ اپنی سعادت و کامرانی کی راہیں استوار کرسکیں، اور ظاہر ہے کہ یہ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی طرف سے ان لوگوں کیلئے نعمت کبریٰ تھی، جس کا شکر اداء کرنا ان کے ذمے فرض تھا۔ اور اس کا تقاضا تھا کہ یہ لوگ صدق دل سے اس پر ایمان لاتے، اور اس طرح یہ دارین کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوتے، مگر انہوں نے اس کے برعکس دیدہ و دانستہ اس سے روگردانی کی، اور حق کا انکار کیا، اور اس طرح یہ حرمان نصیبی کا شکار ہو کر سب سے بڑے خسارے میں مبتلا ہوگئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور انہوں نے شکر نعمت کی بجائے کفران نعمت سے کام لیکر اپنی قوم کو ہلاکت اور تباہی کے ہولناک گڑھے میں اتار دیا جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا { اَلَمْ تَرَ الیٰ الَّذِیْنَ بَدَّلُوا نِعْمَۃَ اللّٰہ کُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَار، جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا وَبِئْسَ الْقَرَار } ۔ (ابراہیم : 28-29) ۔ والعیاذ باللہ العزیز الغفار - 580 کفران نعمت باعث محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو کوئی اللہ کی نعمت کو بدلے گا اس کے بعد کہ وہ اس کے پاس پہنچ گئی تو اس کا انجام بڑا برا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ یعنی ان کو بلامحنت و مشقت، یہ نعمت ازخود نصیب ہوگئی۔ اس طرح ان کو نعمت پر نعمت، اور کرم بالائے کرم سے نوازا گیا، مگر انہوں نے پھر بھی اس کو نہ مانا، تو اس طرح انہوں نے حق سے اعراض واِنکار، اور اس کی ناقدری و ناشکری کے دوہرے جرم کا ارتکاب کیا، جس کے نتیجے میں یہ لوگ حق اور ہدایت کی دولت سے محروم ہوگئے کہ کفران نعمت محرومی کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو شکر نعمت ذریعہ خیر و برکت اور وسیلہ سرفرازی ہے جبکہ کفران نعمت ۔ والعیاذ باللہ ۔ باعث محرومی اور موجب خسران ہے ۔ وَبِاللّٰہ التَّوْفِیْق لِمَا یُحِبُّ وَ یُرِیْدُ ۔ وَہُوَ الْہَادِیْ الیٰ سَوَائ السَّبِیْلِ ۔ اللہ ہمیشہ اپنا شاکر و ذاکر رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 581 اللہ کے عذاب سے ڈرنے کی ضرورت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ بڑا ہی سخت عذاب دینے والا ہے۔ پس وہ ایسے بےانصاف اور ظالم لوگوں کو سخت عذاب میں مبتلا کریگا، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ایسی بڑی اور عظیم الشان نعمت کی ناقدری کی، اور اس سے ہدایت حاصل کرنے کی بجائے الٹا اس کی توہین کی، اور اس طرح انہوں نے اس کو اپنے لئے گناہ اور عذاب میں اضافے کا باعث بنادیا۔ سو اس میں ان لوگوں کیلئے سخت وعید ہے جنہوں نے حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی بعثت و تشریف آوری کے بعد ان پر ایمان نہیں لایا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اللہ پاک رحمن و رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ شدید العقاب بھی ہے اس لیے جہاں اس کی رحمت و عنایت کی امید رکھنا ایمان کا تقاضا ہے وہاں اس کی گرفت و پکڑ سے بچنے کی فکر اور اس کے عذاب سے ڈرنا بھی ایمان کا تقاضا ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی پناہ اور اپنی عنایت میں رکھے اور ہر قسم کے عذاب سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top