Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 216
كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
كُتِبَ عَلَيْكُمُ : تم پر فرض کی گئی الْقِتَالُ : جنگ وَھُوَ : اور وہ كُرْهٌ : ناگوار لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تَكْرَھُوْا : تم ناپسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تُحِبُّوْا : تم پسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ شَرٌّ : بری لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
تم لوگوں پر فرض کردیا گیا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا جو کہ تمہیں طبعاً ناگوار ہے لیکن عین ممکن ہے کی ایک چیز تمہیں ناگوار ہو مگر حقیقت میں وہی تمہارے لئے بہتر ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو مگر حقیقت کے اعتبار سے وہی تمہارے لئے بری ہو اللہ جانتا ہے سب کچھ اور تم لوگ نہیں جانتے5
597 جہاد فی سبیل اللہ کی فرضیت کا بیان : سو تم پر جہاد فرض کردیا گیا تاکہ فتنہ و فساد کی جڑ کٹ سکے، اور حق کا بول بالا ہو، اور باطل والے حق کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈال سکیں، جیسا کہ عام دواؤں سے جب فائدہ نہیں ہوتا تو پھر آخری علاج آپریشن ہی ہوتا ہے، تاکہ جسم کا وہ مسموم حصہ کاٹ پھینکا جائے، اور اس طرح جسم کے باقی اجزاء اس زہر کے اثر سے سالم و محفوظ رہیں۔ سو اسی طرح جہاد کو سمجھو، جو دنیا کو زہریلے عناصر اور فاسد مواد سے پاک صاف کرتا ہے، تاکہ اللہ کے دین حق کا بول بالا رہے اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے کہ اللہ کا کلمہ ہی بلند وبالا اور سب سے افضل و اعلی ہے۔ اور جہاد میں چونکہ جان اور مال دونوں کی قربانی دینا پڑتی ہے اس لیے یہ طبعی طور پر انسان کیلئے گراں اور سخت مشکل چیز ہے، لیکن بعض اوقات بلکہ بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ ایک چیز انسان کو طبعی طور پر بری لگتی ہے لیکن اس کی بہتری اور بھلائی کا سامان اسی میں مضمر ہوتا ہے۔ سو " جہاد فی سبیل اللہ " بھی ایک ایسی عظیم الشان اور بےمثال عبادت ہے جو انسان اور خاص کر مسلمان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ ہے، کہ اس سے دنیا سے شر و فساد کے عناصر کا قلع قمع ہوتا ہے۔ حق کا بول بالا ہوتا ہے اور مسلمان کو دنیاوی عزت و کرامت بھی نصیب ہوتی ہے، اور آخرت کی ابدی اور سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی بھی۔ اور اگر اس سے گریز و فرار اختیار کرلیا جائے تو تمام انسانی اقدار بالکل تباہ ہو کر رہ جاتی ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو جہاد فی سبیل اللہ ایک عظیم الشان فریضہ ہے۔ 598 اللہ تعالیٰ کے کمال علم کا حوالہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور اللہ پوری طرح جانتا ہے ہر چیز کو : پس تم اپنی پسند اور ناپسند، اور گوارا اور ناگوار ہونے کو کبھی بنیاد نہ بناؤ، بلکہ اصل بنیاد اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین ہی کو بناؤ کہ تمہاری بہتری اور بھلائی بہرحال اسی کے حکم و ارشاد میں ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ خواہ تمہیں سمجھ آئے یا نہ آئے، کہ اس کا ہر حکم و ارشاد بہرحال حق و صدق اور تمہاری خیر اور بھلائی ہی پر محیط و مشتمل ہوتا ہے۔ اور وہی وحدہ لاشریک ہے جو ہر چیز کو اس کے ظاہر و باطن، حال مآل ہر اعتبار سے جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور تم لوگ نہیں جانتے۔ سو دنیاوی اعتبار سے اگرچہ تم لوگ بھی ظاہری طور پر اور مادی پہلو کے لحاظ سے بہت کچھ جانتے ہو، لیکن حق اور حقیقت کے اعتبار سے اور مآل و انجام اور نہایت و عاقبت کے لحاظ سے تم لوگ کچھ بھی نہیں جانتے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کے علم و ادراک اور اطلاع و آگہی پر انسان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا مدارو انحصار ہے، اور یہ سب کچھ جاننا اللہ کے سوا اور کسی کیلئے ممکن ہی نہیں۔ لہذا تم لوگ ہمیشہ اور ہر حال میں اس خالق ومالک کی تعلیمات و ہدایات پر یقین و اعتماد رکھو کہ اسی میں تمہارا بھلا ہے۔ اور اس کے ارشادات کو دل و جان سے اپناؤ ۔ وباللہ التوفیق -
Top