Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 218
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو ھَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور انہوں نے جہاد کیا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يَرْجُوْنَ : امید رکھتے ہیں رَحْمَتَ اللّٰهِ : اللہ کی رحمت وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اس کے برعکس جو لوگ ایمان لائے سچے دل سے اور انہوں نے ہجرت کی اللہ کی رضا کے اور اپنے دین کی خاطر اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں تو یقینا ایسے لوگ امید رکھ سکتے ہیں اللہ کی رضاو رحمت کی اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے
606 مومن صادق کیلئے اللہ کی رحمت کی امید : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے حضرات اللہ کی رحمت کی امید رکھ سکتے ہیں، اپنے اخلاص، اور اپنی سعی اور کوشش کی بناء پر، کہ ان کے ذمے جو کچھ تھا وہ اسے بجا لائے اور اپنے بس کی حد تک انہوں نے اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ یہاں پر یہ نہیں فرمایا کہ وہ کامیاب ہوگئے، اور انہوں نے اپنے رب کی رحمت پا لی، اور وہ جنت کے مستحق ہوگئے وغیرہ۔ بلکہ { یَرْجُوْنَ } فرمایا گیا ہے یعنی " یہ لوگ اپنے رب کی رحمت کی امید رکھ سکتے ہیں " کہ اس سے ان کو نوازا جائیگا۔ اور یہ اس لئے کہ بندہ جتنی بھی کوشش و محنت کرے، وہ یقین سے کبھی نہیں کہہ سکتا کہ میرا عمل ایسا ہے کہ اسے لازماً قبول کیا جائیگا، بلکہ وہ صرف امید ہی رکھ سکتا ہے کہ انشاء اللہ میرا عمل شرف قبولیت پا لیگا۔ دوسرے اس لئے کہ جنت انسان کو اپنے عمل کے بدلے میں نہیں، بلکہ محض اللہ پاک کے فضل و کرم اور اس کی رحمت و عنایت ہی سے نصیب ہوگی۔ جیسا کہ دوسری نصوص میں صراحتاً وارد و مذکور ہے۔ اور یوں بھی جب انسان کا عمل محدود ہے، اور جنت اور اس کی نعمتیں ابدی اور لامحدود، تو پھر وہ اس محدود اور ناقص عمل کا بدلہ کیسے قرار پاسکتی ہیں ؟ اس سے تو اللہ پاک اپنے بندوں کو محض اپنے کرم سے نوازیگا۔ البتہ وہ ملے گی انسان کے اسی عمل محدود کی وجہ، اور اس کے سبب سے، جو کہ اس نے اپنی زندگی میں اپنے مالک کی رضا کیلئے کیا ہوگا۔ تو اعمال اس کا سبب ہیں، نہ کہ مقابل اور بدلہ، اور اللہ پاک محض اپنے فضل و کرم سے اپنے مومن بندوں کو اس سے نواز دے گا ۔ سبحانہ تعالیٰ ۔ سو یہ لوگ ایمان، جہاد اور ہجرت کے ان تمام مراحل سے گزرنے کے باوجود اللہ کی رحمت کے حقدار ہونے کا یقین نہیں کرسکیں گے، بلکہ یہ اس کے امیدوار ہی ہوسکتے ہیں۔ سو کسی کو کبھی مست نہیں ہوجانا چاہئے۔ بلکہ خوف و رجا کے دونوں پہلوؤں پر نظر رکھنی چاہیے اور یہی صحت و سلامتی کی راہ ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 607 اللہ تعالیٰ کی بخشش و رحمت کی تذکیر و یاددہانی : سو اللہ تعالیٰ کی بخشش و رحمت کی تذکیر و یاددہانی کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے۔ پس جو غلطیاں، کو تاہیاں، بشری تقاضے سے سرزد ہوجائیں، وہ ان کو معاف فرما دیتا ہے۔ روایات کے مطابق حضرت عبداللہ بن حجش ؓ اور آپ ؓ کے ساتھی جو مال غنیمت لائے تھے، وہ ابھی تک تقسیم نہیں کیا گیا تھا، بلکہ حکم خداوندی کے انتظار میں رکھا تھا، تو اس آیت کریمہ کے نازل ہونے پر آنحضرت ﷺ نے اس مال کا خمس نکالا، جو بیت المال کیلئے ہوتا ہے، اور باقی غانمین میں تقسیم فرما دیا (معارف وغیرہ) ۔ بہرکیف گناہ جتنے بھی ہوجائیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت و بخشش اور رحمت و عنایت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اس سے ہمیشہ اس کی مغفرت و بخشش اور رحمت و عنایت کا سوال کرتے رہنا چاہیئے کہ اس کی بخشش اور رحمت ناپیدا کنار ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ -
Top