Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 224
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَلَا تَجْعَلُوا : اور نہ بناؤ اللّٰهَ : اللہ عُرْضَةً : نشانہ لِّاَيْمَانِكُمْ : اپنی قسموں کے لیے اَنْ : کہ تَبَرُّوْا : تم حسن سلوک کرو وَ : اور تَتَّقُوْا : پرہیزگاری کرو وَتُصْلِحُوْا : اور صلح کراؤ بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور مت بناؤ تم لوگ اللہ (کے پاک نام) کو آڑ، اپنی قسموں کے لئے، کہ (اس کی نام کی قسم کھا رک تم رک جاؤ اس سے کہ) تم نیکی کرو، پرہیزگاری کو اپناؤ، اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ، اور اللہ (سب کچھ) سنتا جانتا ہے،
625 اللہ کے نام کو اپنی قسموں کے لیے آڑ بنانے کی ممانعت : سو اس سے اللہ تعالیٰ کے پاک نام کو اپنی قسموں کیلئے آڑ بنانے کی ممانعت فرما دی گئی۔ روایات میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ اور ان کے داماد حضرت نعمان بن بشیر ؓ کے درمیان کسی بات میں تکرار ہوگیا، تو عبداللہ بن رواحہ ؓ نے قسم کھالی کہ میں نہ تم سے ملونگا، نہ کلام کرونگا، اور نہ تمہاری کسی بھلائی برائی میں کوئی دخل دونگا۔ اس کے بعد جب کوئی حضرت عبداللہ سے اس بارے میں بات کرتا تو آپ ؓ کہہ دیتے کہ میں نے تو اللہ کے نام کی قسم کھائی ہے۔ لہذا میں اس بارے کچھ نہیں کرسکتا۔ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (معارف، مراغی، صفوۃ وغیرہ) ۔ بہرکیف اس میں اس بات سے منع فرمایا گیا ہے کہ کسی نیک کام کے کرنے سے قسم کھائی جائے، اور اگر کوئی ایسا کرلے تو وہ اپنی قسم کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرے، اور وہ نیک کام جس سے اس نے قسم کھالی تھی کرلے۔ چناچہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے کوئی قسم کھالی، پھر دیکھا کہ وہ کام جس سے اس نے قسم کھائی تھی بہتر ہے، تو وہ اس کام کو کرلے، اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرلے (صحیح مسلم، کتاب الایمان) ۔ نیز اس آیت کریمہ سے یہ بھی نکلتا ہے کہ اللہ کا نام لے کر بار بار قسمیں کھانا بھی اسلام کی نظر میں درست نہیں، کیونکہ اللہ پاک کا نام اس طرح کی قسموں میں بار بار استعمال کرنا بھی اس کو آڑ بنانا ہے (القاسمی) ۔ والعیاذ باللہ ۔ اسی لیے بار بار قسمیں کھانے کو منافقوں کی نشانی بتایا گیا ہے۔ بہرکیف اللہ پاک کا نام بہت ہی عظمت و شان والا ہے۔ لہذا اس کی اس عظمت شان اور جلالت مقام کا ہمیشہ اور ہر موقع پر خیال رکھا جائے، اور پھر اس قول و فعل سے احتراز و اجتناب اور پرہیز کیا جائے، جس سے اس کے بارے میں سوء ادبی کا کوئی پہلو نکلتا ہو یا اس طرح کا کوئی شائبہ پایا جاتا ہو ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ والعیاذ بہ جل و علا ۔ سو اس سے اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت بھی آشکارا ہوجاتی ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top