Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 227
وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِنْ : اور اگر عَزَمُوا : انہوں نے ارادہ کیا الطَّلَاقَ : طلاق فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : خوب سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی، تو (یاد رکھیں کہ یہ مدت گزرتے ہی قطعی طلاق پڑجائے گی کہ) بیشک اللہ (سب کچھ) سنتا جانتا ہے
629 " اِیلائ " پر قائم رہنے والوں کا حکم : کہ وہ اپنی قسم پر ہی قائم رہے، نہ انہوں نے رجوع کیا، اور نہ ہی قسم توڑی، تو چار ماہ کی یہ مدت گزرتے ہی ان پر ایک طلاق بائن واقع ہو جائیگی، جس کے بعد اس بیوی کو اپنے عقد زوجیت میں رکھنے کیلئے اس کو تجدید نکاح کی ضرورت ہوگی کہ وہ اس کے حبالہ عقد سے بہرحال نکل گئی۔ سو ایسے لوگوں کو چاہیئے کہ وہ اللہ سے ڈریں کہ وہ سمیع وعلیم ہے جو ان کے " ایلاء " اور ان کی قسموں کو بھی سنتا ہے، اور ان کے دلوں کی نیتوں اور ان کے مخفی ارادوں کو بھی جانتا ہے۔ اس کی گرفت و پکڑ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ اس لیے ہمیشہ اس سے اپنا معاملہ صاف اور صحیح رکھنے کی ضرورت ہے۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اس طرح کی قسم چونکہ ازدواجی مقاصد کے خلاف اور بر وتقوی کے منافی ہے، کہ اس سے بیوی بالکل معلق ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے اسلام نے اس طرح کی قسم کھاکر بیٹھنے والوں کیلئے چاہ ماہ کی حد مقرر کردی ہے، کہ یا تو وہ اس مدت کے اندر بیوی سے ازدواجی تعلقات بحال کرلیں۔ یا اگر اس کو طلاق دینے کا فیصلہ ہے تو طلاق دے دیں، تاکہ وہ یونہی معلق نہ پڑی رہے، اور اس کا معاملہ طے ہوجائے۔ اور اس کی پوزیشن واضح ہوجائے۔ اور اس کو ایذا نہ پہنچے۔
Top