Tafseer-e-Madani - An-Noor : 12
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ : کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا ظَنَّ : گمان کیا الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتوں بِاَنْفُسِهِمْ : (اپنوں کے) بارہ میں خَيْرًا : نیک وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ھٰذَآ : یہ اِفْكٌ : بہتان مُّبِيْنٌ : صریح
یہ کیوں نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے ان کو سنا تھا تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے بارے میں نیک گمان کرتے اور وہ سب یوں کہتے کہ یہ تو ایک کھلا بہتان ہے،
21 مسلمانوں کو آپس میں حسن ظن سے کام لینے کی ہدایت وتعلیم : سو اس ارشاد سے یہ اہم اور بنیادی درس دیا گیا کہ مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی بنیاد باہمی اعتماد اور کامل حسن ظن ہی پر ہونی چاہیئے۔ سو اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا یعنی ایمانداروں کے دین وا یمان کا تقاضا یہی تھا کہ وہ اس قصے کو سنتے ہی اسے افتراء و بہتان قرار دے دیتے۔ کیونکہ مومن کا دین اس کو یہی سکھاتا ہے کہ وہ دوسرے مومن کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن ہی سے کام لے۔ پھر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ۔ ؓ ۔ تو اس کی سب سے بڑھ کر حق دار تھیں۔ اسی لئے روایات میں وارد ہے کہ حضرت ابو ایوب ؓ کی بیوی نے جب ان سے کہا کہ آپ نے سنا نہیں کہ لوگ حضرت عائشہ ؓ کے لئے کیا کچھ کہہ رہے ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں میں نے سنا ہے۔ مگر یہ سب جھوٹ ہے۔ بھلا بتاؤ تم ایسی حرکت کرسکتی ہو ؟ اس نے کہا کہ " لا واللہ " ۔ " نہیں، اللہ کی قسم " تو پھر آپ ؓ نے فرمایا کہ عائشہ ؓ تو تم سے کہیں بہتر ہیں ۔ وہ اس طرح کی کسی حرکت کا ارتکاب کیسے کرسکتی تھیں ؟- (ابن کثیر، ابن جریر، روح، قرطبی، مدارک، فتح وغیرہ) ۔ سو اس میں یہ عظیم الشان تعلیم دی گئی کہ مسلمانوں کے باہمی تعلق کی بنیاد آپس کے اعتماد اور کامل حسن ظن پر ہونی چاہیئے۔ اور وہ اپنے کسی بھائی بہن کے بارے میں برائی کی کوئی بات سنے تو اس کو اس وقت تک قبول نہ کرے جب تک کہ اس کے بارے میں پوری تحقیق نہ کرلے۔ اس سے پہلے اس کو ایسی بات کو منہ پر لانا بھی درست نہیں۔ چہ جائیکہ وہ اس کو یونہی آگے پھیلائے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرور و فتن سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top