Tafseer-e-Madani - An-Noor : 38
لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
لِيَجْزِيَهُمُ : تاکہ انہیں جزا دے اللّٰهُ : اللہ اَحْسَنَ : بہتر سے بہتر مَا عَمِلُوْا : جو انہوں نے کیا (اعمال) وَيَزِيْدَهُمْ : اور وہ انہیں زیادہ ہے مِّنْ فَضْلِهٖ : اپنے فضل سے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَرْزُقُ : رزق دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
اور یہ اس لیے کہ تاکہ اللہ ان کو بہترین بدلے سے نوازے ان کے زندگی بھر کے کیے کرائے پر اور مزید برآں وہ ان کو سرفراز فرمائے اپنی شان کریمی کی بناء پر اپنے خاص فضل و کرم سے اور اللہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے بغیر کسی حساب کے
85 ایمان والوں کے لیے آخرت کے بہترین بدلے کی خوشخبری : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے سچے ایماندار جو کچھ کرتے ہیں آخرت کے اندیشے کی بنا پر اور اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔ تاکہ اللہ ان کو نوازے انکے اعمال کے بہترین بدلے سے کہ ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا اور اس سے بھی بڑھ کر سات سو گنا تک اور اس سے بھی زیادہ اور پھر ان کو ایسی ایسی نعمتوں سے نوازے گا جو نہ کہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوں گی نہ کسی کان نہ سنی ہوں گی اور نہ کسی دل پر ان کا گزر ہی ہوا ہوگا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور دیدار الہی کے شرف سے سرفرازی کی جو معنوی اور روحانی نعمتیں انکو حاصل ہوں گی وہ ان سب سے کہیں بڑھ کر ہوں گی ۔ اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا اِیَّاہَا بِمَحْضِ مَنِّکَ وَکَرَمِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔ سو ایسے لوگ جو یوم آخرت کے اس ہولناک دن کے خوف کی بناء پر اور اللہ تعالیٰ کی رضاء و خوشنودی کیلئے عمل کرتے ہیں وہ بڑے خوش نصیب اور راست رو لوگ ہیں۔ اور یہ اپنی اس نیک نیتی اور صحیح روش کی بنا پر اور اس کی نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے یہاں اور اس کی طرف سے بہترین صلہ و بدلہ سے سرفراز و سرشار ہوں گے۔ سو { لیجزی } کا لام علت کے لیے نہیں بلکہ یہ عاقبت و انجام اور نتیجہ کے لیے ہے۔ جیسا کہ ۔ { فَالْتَقَطَہُ آلُ فِرْعَوْنَ لِیِکُوْنَ لَہُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا } ۔ ( القصص :8) میں ہے یعنی " آل فرعون نے حضرت موسیٰ کو اٹھا لیا تاکہ انجام کار وہ ان کے لیے دشمن اور باعث غم بنے۔ سو دولت ایمان دائمی سعادت سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے ۔ والحمد للہ جل وعلا - 86 اللہ تعالیٰ کی عطاء و بخشش بےحساب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ جس کو چاہتا ہے عطاء فرماتا ہے بغیر حساب کے۔ کہ نہ اس کے خزانوں کی کوئی حدو انتہاء ہے اور نہ اس کی عطاء و بخش کی ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ عز سلطانہ و جل برہانہ ۔ بغیر حساب کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ حساب کا لفظ اپنے معروف معنی میں ہو تو اس وقت اس کا معنیٰ و مطلب یہ ہوگا کہ اللہ جس کو وہاں کے اجر سے نوازے گا انکو ناپ تول کر بالکل برابر برابر نہیں دے گا بلکہ اس کے استحقاق سے کہیں بڑھ کر دے گا کہ اس کی طرف سے معاملہ صرف عدل اور برابری کا نہیں ہوگا بلکہ اس سے بڑھ کر فضل اور احسان کا ہوگا۔ جیسا کہ یہاں پر اسی آیت کریمہ میں فرمایا گیا۔ یعنی اللہ ان کو اپنے فضل سے بھی نوازے گا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ حساب کے لفظ کو یہاں پر حسبان کے معنی میں لیا جائے۔ تو اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ جسکو چاہتا ہے اس کے سان و گمان سے بھی کہیں بڑھ کر عطا فرماتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اللہ نصیب فرمائے اور اپنی شان کرم کے مطابق نصیب فرمائے ۔ آمین۔
Top