Tafseer-e-Madani - An-Noor : 61
لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُیُوْتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآئِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوْ صَدِیْقِكُمْ١ؕ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا١ؕ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَیِّبَةً١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
لَيْسَ : نہیں عَلَي الْاَعْمٰى : نابینا پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلَي الْاَعْرَجِ : لنگڑے پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلَي الْمَرِيْضِ : بیمار پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ : خود تم پر اَنْ تَاْكُلُوْا : کہ تم کھاؤ مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اٰبَآئِكُمْ : یا اپنے باپوں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ : یا اپنی ماؤں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ : یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ : یا اپنی بہنوں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ : یا اپنے تائے چچاؤں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ : یا اپنی پھوپھیوں کے اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ : یا اپنے خالو، ماموؤں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ : یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے اَوْ : یا مَا مَلَكْتُمْ : جس (گھر) کی تمہارے قبضہ میں ہوں مَّفَاتِحَهٗٓ : اس کی کنجیاں اَوْ صَدِيْقِكُمْ : یا اپنے دوست (کے گھر سے) لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَاْكُلُوْا : تم کھاؤ جَمِيْعًا : اکٹھے مل کر اَوْ : یا اَشْتَاتًا : جدا جدا فَاِذَا : پھر جب دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا : تم داخل ہو گھروں میں فَسَلِّمُوْا : تو سلام کرو عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ : اپنے لوگوں کو تَحِيَّةً : دعائے خیر مِّنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاں مُبٰرَكَةً : بابرکت طَيِّبَةً : پاکیزہ كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ اللّٰهُ : اللہ واضح کرتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : سمجھو
نہ اندھے پر کوئی حرج و تنگی ہے اور نہ لنگڑے پر اور نہ ہی بیمار پر، اور نہ خود تم پر اس بات میں کہ تم لوگ کھاؤ پیو اپنے گھروں سے یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے حوالے ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے پھر اس میں بھی خواہ تم سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ تم پر کوئی حرج نہیں،1 پھر یہ بھی یاد رہے کہ جب تم داخل ہونے لگو گھروں میں تو سب سے پہلے سلام کیا کرو اپنے لوگوں کو، اللہ کی طرف سے تعلیم فرمودہ ایک حیات آفریں اور پاکیزہ دعا کے طور2 پر اسی طرح اللہ کھول کر بیان کرتا ہے تمہارے لیے اپنے احکام تاکہ تم لوگ سمجھو اور عقل سے کام لو
130 معذوروں کے لیے رخصت و رعایت کا ذکر و ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اندھے، لنگڑے اور بیمار پر کوئی حرج نہیں "۔ اس بات میں کہ وہ صحت مند لوگوں کے ساتھ مل کر کھائیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ۔ ؓ ۔ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت کریمہ ۔ { وَلا تَأکُلُوْا اَمْوالَکُمْ بَیْنَکُمْ بالْبَاطِلِ } ۔ (البقرۃ : 188) نازل ہوئی تو صحابہ کرام ؓ نے ان معذور حضرات کے ساتھ مل کر کھانے میں حرج محسوس کیا۔ کہ اس طرح کہیں ان معذوروں کا حق نہ مارا جائے کہ اندھا بیچارا اپنی معذوری کی بناء پر دیکھ نہیں سکتا۔ لنگڑا اپنے عذر کی بنا پر حسب رغبت ہاتھ بڑھا کر اپنی مرغوب چیز لے نہیں سکتا۔ اور مریض اپنی بیماری کے باعث پورا کھا نہیں سکتا۔ ادھر ان معذور حضرات کو بھی یہ خیال گزرنے لگا کہ کہیں ہماری وجہ سے دوسرے ساتھیوں کو تکلیف نہ پہنچتی ہو کہ اندھے کا ہاتھ اپنی معذوری کی بناء پر کہیں دوسرے کے آگے اور اس کے حصے میں نہ پہنچ جاتا ہو۔ اور لنگڑا شخص اپنے عذر کی بنا پر زیادہ جگہ لینے کا محتاج اور ضرورت مند ہوتا ہے۔ اور بیمار سے کچھ لوگوں کو طبعی طور پر گھن محسوس ہوتی ہے اور اس طرح ان حضرات نے خوف و خشیت خداوندی کی بنا پر باہم مل کر کھانے پینے میں حرج اور کوفت محسوس کی۔ تو اس پر یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں اور ان میں بتایا گیا کہ ایسے تمام حضرات کے باہم مل کر کھانے میں کوئی حرج اور گناہ نہیں۔ آیت کریمہ کا یہ مفہوم سیاق وسباق سے ظاہر و واضح ہے۔ اور اسی کو اختیار کیا ہے طبری (رح) اور رازی (رح) وغیرہ نے۔ جبکہ دوسرا مطلب اس کا بعض حضرات اہل علم نے یہ بیان کیا ہے کہ ان حضرات اعذار کے جہاد وغیرہ میں شریک نہ ہونے میں ان پر کوئی گناہ نہیں کہ یہ سب لوگ معذور ہیں۔ اور یہ قول حضرت حسن، (رح) عطاء اور زید بن اسلم وغیرہ کا ہے۔ اور اسی کو صاحب بحر اور کشاف نے اختیار کیا ہے۔ سو ان حضرات کے نزدیک یہ آیت کریمہ توبہ کی آیت نمبر 91- { لَیْسَ عَلَی الضَّعَفَائِ وَلَا عَلَی الْمَرْضٰی وَلاَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ مِنْ حَرَجٍ } ۔ نیز سورة فتح کی آیت نمبر 17 کی طرح ہے جس میں فرمایا گیا ہے ۔ { لَیْسَ عَلَی الاَعْمٰی حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ } ۔ (روح، ابن جریر، ابن کثیر، خازن، محاسن اور مراغی وغیرہ) ۔ الفاظ قرآنی بہرحال عام ہیں جو دونوں صورتوں کو محتمل اور ان کو شامل ہیں ۔ وَالْعِلْمُ عِنَدَ اللّہ سُبْحَانَہ وَتَعَالٰی ۔ یہاں سے اس امر کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب انسان کا دل خوف و خشیت خداوندی سے معمور و سرشار ہوتا ہے اس وقت انسان کیسا ہوتا ہے۔ کہ وہ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں بھی اپنے خالق ومالک سے ڈرتا ہے۔ اور جب وہ اس سے محروم ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ تو اس وقت اس کا حال کیا ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الِّذِیْ شَرَّفَنَا بِنِعْمَۃِ الْاِیْمَانِ وَلَذَّتِہٖ ۔ اللّٰھُمَّ زِدْنَا مِنْہُ وثبتنَا عَلَیْہِ ۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی سے اصحاب اعذار کے لیے خاص رعایت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ 131 باہمی اکل و شرب سے متعلق بعض آداب کا بیان : سو ارشاد فرمایا گیا " اور تم لوگوں پر اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ پیو "۔ یعنی اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کے گھروں سے کہ وہ بھی اصل میں تمہارے ہی گھر ہیں۔ اور ان کا مال بھی تمہارا ہی مال ہے (المراغی، المحاسن، ابن کثیر، صفوہ وغیرہ) ۔ کیونکہ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے ۔ " اَنْتَ وَمَالُکُ لِاَبِیْکَ " ۔ " کہ تو اور تیرا مال تیرے باپ ہی کی ملکیت ہے "۔ نیز فرمایا گیا " اِنَّ اَطْیَبَ مَا یَأکُلُ الرَّجُلُ مِنْ کَسْبِہ وان ولدہ من کسبہ " یعنی " سب سے پاکیزہ روزی جو انسان کھاتا ہے وہ اس کی اپنی کمائی کی روزی ہے، اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی میں سے ہے "۔ (المراغی، ابن کثیر، المحاسن وغیرہ) ۔ سو اپنے گھروں میں اپنے اہل و عیال اور آل و اولاد کے گھر بھی آگئے۔ (المعارف وغیرہ) ۔ پس ایسے گھروں میں کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ بھی اصل میں تمہارے اپنے ہی گھر ہیں۔ سو دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ اور آداب عالیہ کا مقصد معاشرتی تعلقات و روابط کو کاٹنا نہیں بلکہ ان کو جوڑنا اور ان کو صحیح خطوط پر استوار کرنا ہے۔ تاکہ سب کے لیے سکون و اطمینان اور آرام و راحت کا سامان ہو۔ 132 رشتہ داروں کے یہاں سے کھانے پینے کی اجازت و آزادی : " اور اپنے رشتہ داروں کے گھروں سے کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں "۔ کہ ان سب لوگوں کے ساتھ تمہارے خاص رشتے اور تعلق ہیں۔ اور یہ تمہارے کھانے پینے سے تنگ بھی نہیں ہوتے۔ اور ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد ان گھروں سے بلا اجازت کھانا ہے۔ (الکبیر، المراغی وغیرہ) ۔ سو استئذان یعنی اجازت لیکر اور سلام کرکے گھروں میں داخل ہونے کی پابندی سے یہ مقصد نہیں کہ تمہارے اپنے ان رشتہ داروں سے تعلقات و روابط منقطع ہوجائیں، بلکہ استئذان کی اس پابندی سے مقصود معاشرے کی بہتری اور اصلاح ہے۔ تاکہ نہ کسی پر کوئی حرج اور تنگی ہو اور نہ کسی فتنے و فساد کا کوئی خدشہ و اندیشہ۔ ورنہ اپنے ان رشتہ داروں کے گھروں میں جانے کی کوئی ممانعت نہ ہے اور نہ ان کے یہاں سے کھانے پینے کی کوئی پابندی۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جب تم ان گھروں میں داخل ہوا کرو تو اجازت لیکر اور سلام کرکے داخل ہوا کرو جو کہ ایک بڑی مبارک دعا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم لوگوں کو تعلیم وارشاد فرمائی گئی ہے تاکہ تم اس کی خیرات و برکات سے مستفید و مالامال ہو سکو۔ اور یہ طریقہ تمہارے لیے خیر و برکت سے سرفرازی کا ذریعہ بنے ۔ وباللہ التوفیق ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔ 133 زیر تولیت گھروں کا استثناء : سو ارشاد فرمایا گیا " اور نہ ہی ان گھروں کے بارے میں تم پر کوئی حرج اور تنگی ہے جنکی چابیاں تمہارے حوالے ہوں "۔ کیونکہ چابیاں تمہارے حوالے کرنے سے ظاہر ہے کہ ان کو تمہارا کھانا پینا ناگوار نہیں۔ ایسے گھروں کا مصداق وہ گھر ہیں جو کسی شخص کی تولیت اور اس کی نگرانی میں ہوں۔ جیسے کوئی کسی گھر کا متولی و نگران ہو۔ سو ایسے شخص کو وہاں سے کوئی پھل وغیرہ کھالینے میں یا وہاں کے کسی جانور کا دودھ پی لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن نہ تو وہاں سے کچھ اٹھا کر اپنے گھر لے جائے اور نہ ہی اس کو اپنے لیے ذخیرہ کرے۔ اور یہ بھی اس صورت میں ہے جبکہ وہ اس نگرانی اور تولیت پر کوئی اجرت نہ لیتا ہو۔ ورنہ اس کیلئے یہ بھی جائز نہیں۔ (المراغی، المعارف وغیرہ) ۔ سبحان اللہ ۔ دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ میں کیسی کیسی باریکیوں کا خیال رکھا گیا ہے تاکہ نہ کسی کا کسی طرح کا کوئی نقصان ہو نہ کسی کا کوئی حق مارا جائے اور نہ کسی کے لیے کوئی مشکل پیدا ہو۔ بلکہ باہمی الفت وترابط میں استحکام پیدا ہو ۔ فالحمد للہ ۔ 134 دوستوں کے گھروں کا استثناء : سو ارشاد فرمایا گیا " اور نہ ہی تمہارے دوستوں کے گھروں کے بارے میں اس طرح کی کوئی ممانعت اور پابندی ہے۔ قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ جب تم اپنے دوست کے گھر داخل ہوگئے تو اس کے گھر سے بلا اجازت کچھ کھا پی لینے سے تم پر کوئی گناہ نہیں۔ (ابن کثیر، صفوہ التفاسیر وغیرہ) ۔ سو مطلب یہ ہوا کہ ان لوگوں کے گھروں سے کچھ کھاپی لینے پر کوئی حرج اور تنگی نہیں اگرچہ وہ وہاں پر موجود نہ ہوں جبکہ ان کی طرف سے اس کی رضامندی کا علم ہوجائے۔ خواہ صریح لفظ سے خواہ کسی قرینے سے۔ (المراغی وغیرہ) ۔ سو ان لوگوں کے گھروں سے کھا پی لینے میں بھی تم پر کوئی تنگی اور حرج نہیں۔ اور اس طرح کا کوئی کھانا پینا اس کا حق کھانے پینے کی زمرے میں نہیں آتا جس کی ۔ { لاَ تَاکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بالْبَاطِلِ } ۔ کے ارشاد خداوندی میں ممانعت فرمائی گئی ہے۔ سو اللہ پاک۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ نے اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت و عنایت سے ان آیات کریمات کے ذریعے واضح فرما دیا کہ ان صورتوں میں تم پر کوئی تنگی اور حرج نہیں بلکہ آزادی و اباحت ہے ۔ فالحمد للہ - 135 انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں کھانے پینے کی اجازت : سو ارشاد فرمایا گیا " اور تم پر اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ "۔ کہ ان میں سے ہر صورت جائز ہے۔ اور مل کر کھانے میں تم اس بات کا اندیشہ نہ کرو کہ کس نے کم کھایا اور کس نے زیادہ۔ اور مل کر کھانے میں جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے خاص برکت ہے۔ چناچہ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم سب اکٹھے مل کر کھایا کرو۔ الگ الگ نہ ہوا کرو کہ برکت یقینا جماعت کے ساتھ ہے۔ (ابن کثیر وغیرہ) ۔ سو جماعت کے ساتھ اور مل کر کھانا اگرچہ زیادہ اچھا اور بہتر ہے کہ یہ زیادہ خیر و برکت کا باعث ہے لیکن اکیلا کھانا بھی جائز ہے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ 136 باہمی سلام کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جب تم لوگ گھروں میں داخل ہونے لگو تو سب سے پہلے سلام کہا کرو کہ باہمی سلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حیات آفریں اور مبارک طریقہ ہے "۔ " تحیہ " جس میں امن و سلامتی کی دعا بھی ہے اور اگلے کے لئے خوشی و انبساط کا سامان بھی۔ اور باہم ملنے کے وقت تمہارے رب کی جانب سے یہ ایسی عمدہ اور پیاری دعا تلقین فرمائی گئی ہے جس کا دوسرا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ سو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑا مبارک اور پاکیزہ طریقہ تحیۃ وسلام ہے جس سے باہمی تعلقات کی خوشگواری میں اضافہ ہوتا ہے اور خیر و برکت کی دعائیں ملتی ہیں۔ اور یہ طریقہ حسنات اور نیکیوں میں اضافے کا ایک بڑا اہم ذریعہ ہے۔ جیسا کہ بزاز نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور ﷺ نے جو خاص وصیتیں فرمائی تھیں ان میں ایک یہ تھی کہ جس سے بھی ملو اس کو سلام کرو۔ اس سے تمہاری نیکیاں بڑھیں گی۔ نیز فرمایا کہ تم جب اپنے گھر میں داخل ہوؤ تو اپنے گھر والوں کو سلام کہا کرو۔ اس سے تمہارے گھر کی خیر و برکت میں اضافہ ہوگا۔ (ابن کثیر، مراغی وغیرہ) ۔ سو اس طرح گھروں میں داخل ہونا باعث خیر وبرکت بھی ہے اور موجب فرحت و انبساط بھی ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 137 عقل سے کام لینے کی دعوت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ اسی طرح کھول کر بیان کرتا ہے تمہارے لیے اپنے احکام تاکہ تم لوگ عقل سے کام لو "۔ اپنے رب کے ارشاد فرمودہ ان پاکیزہ احکام و آداب کے بارے میں اور ان مقدس ہدایات و ارشادات کو سچے دل سے اپنا کر تم دارین کی سعادتوں سے بہرہ ور ہو سکو۔ اور تم لوگ عقل سے کام لو اور سوچو کہ خداوند قدوس کی طرف سے ارشاد وتعلیم فرمودہ یہ احکام کس قدر اہم اور کتنے پاکیزہ ہیں اور ان کی پابندی میں خود تمہارا ہی بھلا ہے۔ دنیا میں بھی آخرت میں بھی۔ سو اس تنبیہ سے واضح فرما دیا گیا کہ جن لوگوں نے ان ہدایات کو ناروا پابندیوں پر محمول کیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ انہوں نے اپنی عقل سے صحیح طور پر کام نہیں لیا ورنہ وہ اس طرح کی حماقت کا ارتکاب نہ کرتے۔ سو جو اس بارے عقل سے صحیح طور پر کام لیتے ہیں ان پر ان احکام کی افادیت اور ان کی برکات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید ۔ اللہ تعالیٰ زیغ وضلال کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔
Top