Tafseer-e-Madani - Al-Ankaboot : 16
وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهِ : اپنی قوم کو اعْبُدُوا : اتم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاتَّقُوْهُ : اور اس سے ڈرو ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
اور ابراہیم کو بھی ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا سو یاد کرو جب کہ انہوں نے کہا اپنی قوم سے کہ تم لوگ بندگی کرو ایک اللہ کی اور اسی سے ڈرو یہ بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم جانو۔
15 قصہ ابراہیم کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ابراہیم کو بھی ہم نے رسول بنا کر بھیجا۔ یاد کرو جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم لوگ صرف اللہ ہی کی بندگی کرو اور اسی سے ڈرو۔ سو پیغمبر کی زندگی میں اصل چیز ان کی دعوت ہوتی ہے نہ کہ مولود و میلاد کے جشن منانا۔ اس لیے ذکر ان کی دعوت کا فرمایا گیا ہے میلاد اور پیدائش کے قصے کا نہیں۔ سو ارشاد ہوا کہ حضرت ابراہیم کے اس مشن اور دعوت کو یاد اور بیان کرو جس کو دے کر انہیں مبعوث فرمایا گیا تھا۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ اصل مسئلہ میلاد خوانی اور جشن و جلوس میلاد کا نہیں۔ جس طرح کہ آج کل کے عام کلمہ گو مسلمان نے سمجھ رکھا ہے۔ بلکہ اصل مقصد پیغمبروں کی دعوت اور ان کے مشن کو اپنانا اور آگے پہنچانا ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے اسلاف و اَکابر نے دین حق کی اس دعوت کو عام کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش تو ہمیشہ کی اور ہر طرح سے کی لیکن میلاد منانے اور اس طرح کے جلوس نکالنے کا اہتمام کبھی نہیں کیا۔ اور پورے قرآن پاک میں جہاں بھی کہیں کسی پیغمبر کا ذکر آیا وہاں ان کی دعوت و تبلیغ ہی کا ذکر فرمایا گیا۔ کسی کے بھی مولود یا میلاد کا ذکر نہیں فرمایا گیا سوائے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کہ ان کی ولادت عام اسباب کے خلاف معجزانہ طور پر ہوئی تھی۔ یا پھر حضرت آدم کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ انکو خالق نے بغیر ماں باپ کے مٹی سے پیدا فرمایا اور پھر اپنے کلمہ { کن } سے انکو زندہ فرما دیا اور بس۔ اس کے سوا کسی بھی پیغمبر کی ولادت اور پیدائش کا کوئی ذکر پورے قرآن میں کہیں نہیں فرمایا گیا بلکہ ان کی دعوت اور تبلیغ کا ذکر فرمایا گیا۔ سو اصل چیز ان کی دعوت اور تبلیغ ہے نہ کہ ان کے مولود و میلاد کے جشن منانا ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 16 تقویٰ و عبادت فوز و فلاح کی اصل اساس و بنیاد ہے : اس لیے حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ " تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور اسی سے ڈرو۔ یہ بہتر ہے تم لوگوں کے لیے اگر تم جانو "۔ سو " اللہ ہی کی بندگی اور اس کا تقویٰ ہی سب سے بہتر ہے اگر تم لوگ جانو "۔ اس حق اور حقیقت کو۔ کہ معبود برحق بہرحال وہی وحدہ لاشریک ہے۔ اور ہر طرح کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے۔ اس کے سوا نہ کسی کے لئے سجدہ جائز، نہ رکوع، نہ قیام، نہ نذر، نہ نیاز اور نہ طواف۔ پس عبادت کی یہ تمام شکلیں تم اسی وحدہ لاشریک کے لئے بجا لاؤ کہ تمہاری کامیابی اور سلامتی کی راہ یہی اور صرف یہی ہے۔ اور اس کی بجائے اگر تم نے کسی اور کی بندگی و پوجا کی تو یہ تمہارے لئے سراسر ہلاکت اور تباہی کا سامان ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی اور اس کا تقویٰ و خوف ہی وہ دولت ہے جو زندگی کا اصل مقصد بنائے جانے کے لائق ہے کہ اسی میں انسان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان ہے۔ بہرکیف حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو حق کی دعوت دیتے ہوئے ان سے کہا کہ تم سب اللہ وحدہ لا شریک ہی کی عبادت و بندگی کرو کہ معبود برحق وہی اور صرف وہی ہے۔ تم اس کی گرفت اور اس کے عذاب سے ڈرو اور اس کے حقِّ عبادت و بندگی میں دوسروں کو شریک کر کے اس کے غضب کو دعوت نہ دو ۔ یہ سب سے بہتر نصیحت اور عمدہ موعظت ہے جو میں تم لوگوں کو ٹھیک وقت پر پہنچا رہا ہوں بشرطیہ تم اس کو سمجھو اور اس کی صحیح طور پر قدر کرو ۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید -
Top