Tafseer-e-Madani - Yaseen : 41
وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمْ : ان کے لیے اَنَّا : کہ ہم حَمَلْنَا : ہم نے سوار کیا ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد فِي الْفُلْكِ : کشتی میں الْمَشْحُوْنِ : بھری ہوئی
اور ان کے لئے ایک اور نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کو سوار کیا اس بھری کشتی میں
43 بھری کشتی کی نشانی میں دعوت غور وفکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ایک اور عظیم الشان نشانی ان کیلئے یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کو سوار کیا اس بھری کشتی میں "۔ یعنی کشتی نوح کہ وہ پہلی کشتی تھی جو آنجناب نے اللہ پاک کے حکم وارشاد سے بنائی تھی اور جس میں آپ نے اللہ پاک کے حکم کے مطابق ہر چیز کا ایک ایک جوڑا رکھ دیا تھا تاکہ بعد میں نسل چلے۔ اگر اللہ پاک کی عنایت سے ایسے نہ ہوتا تو ان لوگوں کا تخم بھی نہ رہتا۔ سو اس طرح قدرت کا یہ عظیم الشان انعام و احسان جو ان کے بڑوں پر ہوا تھا، وہ بالواسطہ ان لوگوں پر بھی ہوا۔ سو اس عظیم الشان انعام و احسان کا تقاضا یہ تھا اور ہے کہ یہ لوگ صدق دل سے اپنے خالق ومالک کے حضور جھک جائیں تاکہ اس طرح یہ اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان کرسکیں ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف یہ ایک قول ہے کہ اس فلک مشحون ۔ بھری کشتی ۔ سے مراد کشتی نوح ہے۔ (قرطبی، ابن کثیر، صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ جبکہ دوسرا قول و احتمال اس بارے میں یہ بھی ہے کہ اس سے مراد مطلق کشتیاں ہیں جو کہ انکے کام آنے والے طرح طرح کے سامان لیے سمندر کی سطح پر رواں دواں ہیں۔ جن سے انکے طرح طرح کے مفادات وابستہ ہیں۔ سو ایک طرف تو ہم نے ان کیلئے ان کشتیوں اور دیوہیکل جہازوں میں کام آنے والا سامان پیدا کیا اور دوسری طرف انسان کو عقل کے اس جوہر سے بھی ہم ہی نے نوازا جس سے وہ طرح طرح کی ایسی چیزیں بناتا اور قسما قسم کی ایجادات کرتا ہے۔ ورنہ یہ انسان کچھ بھی کرنے کے قابل نہ ہوتا۔ سو یہ ترقیات اور ایجادات جو بھی کچھ انسان کرتا ہے سب ہماری ہی توفیق و عنایت سے کرتا ہے۔ سو یہاں پر یہی مطلب ہے اس ارشاد ربانی کا کہ ہم ہی نے انکو سوار کیا اس بھری کشتی میں۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ ۔ { ذریتھم } ۔ میں ضمیر " ھم " سے مراد یہ لوگ بحیثیت اشخاص نہیں بلکہ بحیثیت انسان ہیں۔ یعنی مطلق نوع انسانی۔ اور " ذریت " سے مراد نسل ہے۔ سو مطلب یہ ہوگا کہ ہم ہی نے نسل انسانی کیلئے ان عظیم الشان کشتیوں اور دیوہیکل بحری جہازوں کے ذریعے بحری سفروں کا انتظام کیا جس سے ہزاروں ٹن کے یہ وزنی جہاز اور کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی سمندروں کے سینوں پر رواں دواں ہیں۔ جس سے انکے طرح طرح کے عظیم الشان مفادات اور قسما قسم کے فوائد و منافع وابستہ ہیں۔ سو یہ قدرت کی خاص عنایات اور عظیم الشان دلائل وبراہین میں سے ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْکَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِنِعْمَۃِ اللّٰہِ لِیُرِیَکُمْ مِنْ آیَاتِہ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لآیٰتٍ لِکُلِّ صَبَّارٍ شُکُوْر } ۔ (لقمن : 31) ۔ پس عبادت و بندگی کی ہر قسم اور شکل اسی وحدہ لا شریک کا حق ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top