Tafseer-e-Madani - Yaseen : 45
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْكُمْ وَ مَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمُ : ان سے اتَّقُوْا : تم ڈرو مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ : تمہارے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَكُمْ : تمہارے پیچھے لَعَلَّكُمْ : شاید تم تُرْحَمُوْنَ : پر رحم کیا جائے
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ڈرو تم اس عذاب سے جو تمہارے سامنے ہے اور جو تمہارے پیچھے آنے والا ہے تاکہ تم پر رحم کیا جائے (تو یہ سنی ان سنی کردیتے ہیں)
47 اللہ کا عذاب کہیں سے بھی آسکتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا " اور ڈرو تم اس عذاب سے جو تمہارے پیچھے آنے والا ہے "۔ یعنی آخرت و قیامت کا عذاب ۔ " اَیْ اَمْرُ السَّاعَۃِ " ۔ (جامع وغیرہ) اور حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ۔ { مَا بَیْنَ اَیْدیکُمْ } ۔ سے مراد آخرت کا عذاب ہے۔ یعنی اس سے بچاؤ کے لئے تیاری کرو۔ اور ۔ { خَلْفَکُمْ } ۔ سے مراد دنیا ہے۔ اور اس عذاب سے بچنے کا ذریعہ اور طریقہ ہے گناہوں سے بچنا۔ اسی لئے مجاہد نے اس کی تفسیر گناہوں سے کی ہے۔ (ابن کثیر، الجامع، الصفوۃ وغیرہ) ۔ سو گناہوں سے بچنا عذاب سے بچنا ہے اور گناہوں میں ملوث ہونا دراصل عذاب میں چھلانگ لگانا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو جب ان لوگوں سے عذاب سے بچنے کو کہا جاتا ہے جو کبھی بھی اور کسی بھی شکل میں آسکتا ہے تو یہ اس سے بچنے اور متنبہ ہونے کی بجائے اعراض کرتے اور عذاب لانے اور اس کی نشانی پیش کرنے کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ سو یہ ان کی بےحسی اور بدبختی کی انتہاء ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف آگے اور پیچھے کے اس عذاب سے وقت کے اعتبار سے بھی آگے اور پیچھے ہونا مراد ہوسکتا ہے۔ اور اسی بناء پر ان حضرات اہل علم نے اس سے دنیا اور آخرت کا عذاب مراد لیا ہے۔ اور اس سے مراد جگہ اور مکان کے اعتبار سے بھی آگے اور پیچھے ہونا مراد ہوسکتا ہے جیسا کہ ابھی سورة سبا کی آیت نمبر 9 کے حوالے سے گزرا۔ سو ۔ { مَا بَیْنَ اَیْدِیْکُمْ وَ مَا خَلْفَکُمْ } ۔ کے کلمات کریمہ کے عموم میں یہ دونوں ہی صورتیں داخل اور اس میں شامل ہیں۔
Top