Tafseer-e-Madani - Yaseen : 46
وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ
وَمَا : اور نہیں تَاْتِيْهِمْ : ان کے پاس آتی مِّنْ اٰيَةٍ : کوئی نشانی مِّنْ اٰيٰتِ : نشانیوں میں سے رَبِّهِمْ : ان کا رب اِلَّا : مگر كَانُوْا : وہ ہیں عَنْهَا : اس سے مُعْرِضِيْنَ : روگردانی کرتے
اور ان کے پاس جو بھی کوئی نشانی ان کے رب کی نشانیوں میں سے آتی ہے تو یہ اس سے اعراض (اور سرتابی) ہی کرتے ہیں1
48 ۔ اعراض و روگردانی محرومیوں کی محرومی، والعیاذ باللہ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب ان کے پاس ان کے رب کی آیتوں اور نشانیوں میں سے کوئی آیت اور نشانی آتی ہے تو یہ اس سے اعراض اور روگردانی ہی برتتے ہیں اور اس سے نہ موڑے ہی رہتے ہیں، تو پھر ایسے میں ان کو حق و ہدایت کی کوئی روشنی ملے تو کیسے ملے ؟ جبکہ اس کے لیے اصل اور اولیں شرط طلب صادق ہے، سو اعراض و روگردانی اور دعوت حق و ہدایت سے منہ موڑنا اور اعراض و روگردانی برتنا محرومیوں کی محرومی اور خرابیوں کی خرابی ہے، والعیاذ باللہ۔ پس صلاح وف لاح کی اصل اور اساس ہے سننا اور ماننا، اور کائنات کے ا ندر بھی یہی نظام کارفرما ہے، اسی لیے قرآن حکیم میں اس کے لیے جابجا زمین کی مثال دی گئی ہے کہ جو زمین نمر اور زرخیر ہوتی ہے وہ جب آسمان سے برسنے والی بارش اور شینچائی کے لیے ملنے والے پانی کے لیے اپنے مسام کھولتی ہے اور اس کو اپنے اندر جذب کرتی ہے تو اس کے اندر طرح طرح کی پیداواریں نکلتی ہیں، اور وہ گل و گلزار بن جاتی ہے، لیکن اس کے برعکس جو زمین پتھر کی سخت ہوتی ہے وہ پانی کے لیے اپنے مسام کھولتے ہی نہیں اور پانی اس کے اندر سرایت کرتا ہی نہیں تو وہ محروم کی محروم ہی رہتی ہے، سو سمع وطاعت سعادت و سرفرازی کی اصل اور اساس ہے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید۔
Top