Tafseer-e-Madani - Yaseen : 47
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ١ۙ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ اَطْعَمَهٗۤ١ۖۗ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے اَنْفِقُوْا : خرچ کرو تم مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ ۙ : اللہ قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ان لوگوں سے جو ایمان لائے (مومن) اَنُطْعِمُ : کیا ہم کھلائیں مَنْ : (اس کو) جسے لَّوْ يَشَآءُ اللّٰهُ : اگر اللہ چاہتا اَطْعَمَهٗٓ ڰ : اسے کھانے کو دیتا اِنْ : نہیں اَنْتُمْ : تم اِلَّا : مگر۔ صرف فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم لوگ خرچ کرو اس میں سے جو کہ تم کو اللہ نے بخشا ہے (اپنی رحمت و عنایت سے) تو وہ لوگ جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر پر ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم ان کو کھلائیں جن کو اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا تم لوگ تو صاف طور پر پڑے ہو کھلی گمراہی میں
49 منکرین کی بےحسی اور مت ماری کا ایک نمونہ : سو اس سے ان منکرین کی بےحسی، ہٹ دھرمی اور مت ماری کا ایک نمونہ و مظہرسامنے آتا ہے کہ جب ان سے اللہ کے دیے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرنے کو کہا جاتا ہے جس میں خود انہی کا بھلا ہوتا ہے تو یہ اس کے جواب میں اس طرح کہتے ہیں۔ یعنی ان کی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ غریبوں پر خرچ کرنا جو کہ ان کے نزدیک بھی نیکی کا کام ہے، جب اس کے بارے میں ان سے کہا جاتا ہے تو اس کے جواب میں یہ لوگ تقدیر کے حیلے و حوالے سے انکار کردیتے ہیں۔ تو پھر ان سے قبول حق کی کیا امید ہوسکتی ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ایسے لوگ انفاق فی سبیل اللہ کے حکم وارشاد کے جواب میں کہتے ہیں کہ جن کو اللہ نے نہیں کھلایا انکو ہم کیوں کھلائیں ؟ 50 قلب و نظر کے بگاڑ و انحراف کا ایک نمونہ و مظہر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جب ان سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو کہا جاتا ہے تو کافر لوگ کہتے ہیں کہ کیا ہم ان لوگوں کو کھلائیں جن کو اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا۔ تم لوگ تو گمراہی میں پڑے ہو "۔ سو یہ ایسے مادہ پرست لوگوں کی بڑی غلط فہمی اور بنیادی بھول ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کے دیے بخشے اس رزق و فضل کو اپنا ذاتی استحقاق سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت امر یہ ہے کہ دیتا اور کھلاتا تو سب کو وہی وحدہ لاشریک ہے، مگر اس نے ابتلاء و آزمائش اور دوسری حکمتوں کے پیش نظر دنیاوی معیشت میں بعض کو بعض پر فوقیت و فضلیت دے رکھی ہے۔ تاکہ اس طرح ہر ایک کی آزمائش ہو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃ، اَ تَصْبِرُوْنَ وَ کاَنَ رَبُّکَ بَصِیْرًا } ۔ ( الفرقان : 20) ۔ سو وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو تمہارے ہاتھ سے ملے تاکہ اس طرح اس ابتلاء و آزمائش کے تقاضے بھی پورے ہوں اور خود تمہارا بھی بھلا ہو۔ ورنہ وہ اس پر قادر ہے کہ تم سے یہ سب کچھ یک لخت چھین لے جس کے تم لوگ آج مالک بنے بیٹھے ہو۔ پھر تم ہمیشہ کے لئے ہاتھ ملتے رہ جاؤ۔ سو اپنے ہاتھوں سے دینے کے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس کے نام پر خرچ کرو ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف انفاق فی سبیل اللہ کے مطالبے پر ان لوگوں کا جواب یہ ہوتا تھا جو ابھی گزرا جس سے ان کی حماقت اور ان کے قلب و نظر کا بگاڑ و انحراف سامنے آتا ہے اور ان کی قساوت قلبی اور حماقت و سفاہت کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی لیے ان کے اس جواب سے متعلق یہاں پر کوئی تبصرہ نہیں فرمایا گیا کہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ جب دل بگڑتے ہیں تو عقلیں اسی طرح ٹیڑھی اور اوندھی ہوجاتی ہیں اور آدمی اس طرح ہلاکت اور تباہی کے گڑھے میں جا گرتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top