Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 164
وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَ١ؕ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ
وَرُسُلًا : اور ایسے رسول (جمع) قَدْ قَصَصْنٰهُمْ : ہم نے ان کا احوال سنایا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ سے) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَرُسُلًا : اور ایسے رسول لَّمْ : نہیں نَقْصُصْهُمْ : ہم نے حال بیان کیا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ کو) وَكَلَّمَ : اور کلام کیا اللّٰهُ : اللہ مُوْسٰى : موسیٰ تَكْلِيْمًا : کلام کرنا (خوب)
اور ان رسولوں کو بھی (ہم نے وحی سے نوازا) جن کا ذکر ہم آپ سے اس سے پہلے کرچکے ہیں، اور ان رسولوں کو بھی جن کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا، اور موسیٰ کو نوازا اللہ نے اپنے بلا واسطہ کلام سے،2
429 جلیل القدر حضرات انبیاء کا ذکر : مکی سورتوں میں (جامع، محاسن، وغیرہ) جیسا کہ سورة الانعام کی آیت نمبر 85 تا 87 میں کئی جلیل القدر حضرات انبیائے کرام کا ذکر فرمایا گیا ہے، جہاں ان حضرات کے اسماء گرامی کا ذکر فرمایا گیا ہے اور سورة ھود اور شعراء وغیرہ میں ان کے تفصیلی ناموں کو ذکر اور بیان فرمایا گیا ہے۔ اور ان سب حضرات کا ذکر اس لیے نہیں فرمایا گیا کہ عبرت و تذکیر وغیرہ کے جن اہم مقاصد کیلئے ان قصوں کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ انہی حضرات کے ذکر سے پورے ہوجاتے ہیں۔ (المراغی وغیرہ) ۔ اس لیے سب انبیاء و رسل کے تذکرے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ مقصود محض قصہ گوئی یا تاریخ کا بیان کرنا نہیں بلکہ درس عبرت و بصیرت دینا تھا جسکے لیے مذکورہ حضرات کا ذکر ہی کافی تھا۔ 430 سب رسولوں کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے نہیں فرمایا گیا : کہ سب کی تفصیل بیان کرنا اور ان کے حالات و تاریخ کا ذکر کرنا ضروری ہی نہیں تھا، کیونکہ ان قصوں کے ذکر کرنے سے اصل مقصود ہے راہ حق و ہدایت کو واضح کرنا۔ اس ضمن میں ان کے قصوں سے مواد عبرت و بصیرت مہیا کرنا، پیغمبر کے لئے اور آپ ﷺ کے توسط سے قیامت تک آنے والے سب اہل حق کے لئے تثبیت قلب اور ثابت قدمی کے لئے سامان کرنا تھا۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا { وَکُلاً نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ أنْبَائِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُوَادَکَ } الایۃ (ھود : 120) " اور ان پیغمبروں کے احوال میں سے جو بھی کچھ ہم آپ کو سناتے ہیں (اے پیغمبر ! ) اس سے آپ کے دل کو مضبوط کرتے ہیں " اور یہ سب کچھ انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ کے ان قصوں میں بدرجہ کمال و تمام موجود ہے، جو قرآن پاک میں ذکر فرما دئے گئے ہیں۔ اور اس حد تک کہ اس میں مزید کسی اضافہ کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش۔ ورنہ یوں تو ہر امت و جماعت کو کسی نہ کسی پیغمبر کی تعلیمات سے نوازا گیا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا { وََاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلا فِیْہَا نَذِیْرٌ } (فاطر : 24) " ہر امت میں کوئی نہ کوئی نذیر ہو گزرا ہے " اور ہر امت میں کوئی نہ کوئی رسول ضرور آیا ہے ارشاد ربانی ہے { وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ } الآیۃ (النحل : 36) " اور بلاشبہ ہم نے ہر امت میں ایک نہ ایک رسول یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ (لوگو ! ) بندگی اللہ ہی کی کرو، اور شیطان (اور اس کی ذریت) سے بچ کر رہنا " کم و بیش سوا لاکھ انبیائے کرام کی اس عظیم الشان تعداد کے حالات تو در کنار، ان میں سے اکثریت کے بارے میں یہ بھی پتہ نہیں کہ ان کے نام کیا تھے، اور ان کی بعثت کب، کہاں اور کن کن امتوں کی طرف ہوئی تھی، اور ان کی امتوں نے ان سے کیا سلوک کیا، ان کی موت کب، کہاں، اور کس حال میں ہوئی، ان کی تجہیز و تکفین کہاں اور کس طرح ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ پس اس آیت کریمہ سے اہل بدعت کے علم غیب کلی وغیرہ کے خود ساختہ عقیدوں کی جڑ نکل جاتی ہے کہ اس آیت کریمہ کی تصریح اور واقعاتی شہادت کے مطابق ان تمام حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ میں سے اکثر کے حالات زندگی کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ یہاں تک کہ ان کی قبروں کے نشان بھی کہیں موجود نہیں ہیں، اور جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے کہ اس سب حضرات سے متعلق یہ سب کچھ کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی۔ اہل بدعت کے بعض بڑے تحریف پسندوں نے اپنے شرکیہ عقیدے کو حق و صواب کی اس ضرب کاری سے بچانے کے لئے اپنی عادت مالوفہ کے مطابق اس موقع پر جن رکیک تاویلات سے کام لیا ہے، وہ سب واہی اور ان کے عجزو درماندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی سے اہل بدعت کے علم غیب کے شرکیہ عقیدے کی جڑ نکل جاتی ہے ۔ فالحمدللہ ۔ پس علم غیب کلی اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص اور اسی کی صفت و شان ہے۔
Top