Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
(اور اس کے برعکس اگر تم لوگ بچتے رہے ان بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے، تو ہم مٹادیں گے تم سے تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو اور تم کو داخل کردیں گے ایک بڑی ہی عزت کی جگہ میں،1
74 گناہوں کی معافی کیلئے ایک عظیم الشان ضابطہ و اصول : کہ کبیرہ گناہوں سے تم بچتے رہو صغیرہ ہم معاف کردیں گے۔ اور یہ اس لیے کہ نیکیاں صغیرہ گناہوں کو مٹا دیتی ہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { اِنَّ الْحَسَنَات یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ } الآیۃ (ھود : 1 14) اور حدیث شریف میں وارد ہے کہ " ایک نماز دوسری نماز تک، ایک جمعہ دوسرے جمعے تک، اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، درمیانی مدت کیلئے کفارہ ہیں، جبکہ انسان صغیرہ گناہوں سے بچتا رہے "۔ سو اس آیت کریمہ سے اس صحیح اور عظیم الشان طریقے کی نشاندہی فرمائی گئی ہے، جو عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، کہ کبیرہ گناہوں سے تم بچتے رہو، صغیرہ گناہ اللہ پاک اپنی رحمت و عنایت سے خود معاف فرما دے گا کہ وہ غفور اور رحیم بھی ہے، اور ستار و کریم بھی۔ مگر الٹی کھوپڑی کے لوگوں نے اس کے برعکس یہ طریقہ اپنا رکھا ہے کہ صغائر کے ارتکاب پر تو گویا آسمان سر پر اٹھا لیں گے مگر کبائر پر بولیں گے بھی نہیں۔ مثلا جو فرض نمازوں کا تارک ہوگا اس کو تو کچھ نہیں کہیں گے، مگر جو نفل نہ پڑھے گا اس کو کہتے ہیں کہ یہ ایسا اور ویسا ہے۔ گویا کہ ایسے لوگ مشہور مثل کے مطابق مچھر چھانتے ہیں اور ہاتھی نگل جاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اصولی تعلیم بہرحال یہی ہے کہ کبیرہ گناہوں سے تم بچتے رہو، صغیرہ اللہ پاک کی رحمت و عنایت سے خود معاف ہوتے جائیں گے ۔ اللہ ہمیشہ اور ہر طرح کے گناہ سے محفوظ رکھے اور ہمیشہ اپنی رحمت و عنایت کے سائے میں رکھے اور نفس و شیطان کے ہر حملے سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top