Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 39
وَ مَا ذَا عَلَیْهِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِهِمْ عَلِیْمًا
وَمَاذَا : اور کیا عَلَيْهِمْ : ان پر لَوْ اٰمَنُوْا : اگر وہ ایمان لاتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت پر وَاَنْفَقُوْا : اور وہ خرچ کرتے مِمَّا : اس سے جو رَزَقَھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِهِمْ : ان کو عَلِيْمًا : خوب جاننے والا
اور کیا ہوجاتا ان (لوگوں) کو ؟ اگر یہ (سچے دل سے) ایمان لے آتے اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، اور خرچ کرتے (اللہ کی راہ میں) اس میں سے جو کہ اللہ ہی نے بخشا ہے ان کو (اپنے کرم سے) اور اللہ خوب جاننے والا ہے ان سب کو،2
99 ایمان صادق کیلئے ترغیب وتحریض : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ہوجاتا ان کو کہ اگر یہ لوگ ایمان لے آئے اللہ پر اور قیامت کے دن پر۔ سو یہ ان کے لئے زجر و توبیخ بھی ہے، اور تحریض و ترغیب بھی۔ کہ یہ منافقت چھوڑ کر سچے دل سے ایمان لے آئیں تاکہ ایمان صادق کے ثمرات اور اس کی برکات سے دارین میں مستفید و متمتع ہو سکیں۔ سو منافقت میں خود انہی لوگوں کا نقصان ہے اور صدق ایمان و یقین کی دولت میں خود انہی کا بھلا اور فائدہ ہے، کہ صدق ایمان و یقین کے بعد کئے جانے والے ہر عمل کا اللہ تعالیٰ کے یہاں وزن اور اس کی کوئی قدر و قیمت ہوسکتی ہے۔ جبکہ منافقت والے عمل کی اس کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِجل وعلا - 100 اِنفاق فی سبیل اللہ کے لیے تحریض و ترغیب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ہوجاتا ان لوگوں کو اگر یہ [ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لیے ] خرچ کرتے اس مال میں سے جو کہ اللہ ہی نے ان کو دیا بخشا ہے [ اپنے فضل و کرم سے ] ۔ اس میں بھی ترغیبی پہلو واضح ہے کہ اول تو جو کچھ ان کے پاس ہے وہ اس اللہ ہی کا عطا کردہ، اور عنایت فرمودہ ہے، جس کے نام اقدس پر خرچ کرنے کیلئے ان سے کہا جا رہا ہے۔ اور پھر یہ مطالبہ بھی اللہ کے دیئے ہوئے اس سب مال کا نہیں، بلکہ اس میں سے کچھ ہی کا ہے۔ پھر بھی ان لوگوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر موت کیوں آجاتی ہے ؟ جبکہ اس میں خود ان ہی لوگوں کا بھلا اور فائدہ ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور اس کا اجر و صلہ ان کو ایک کا دس گناہ، سو گنا، سات سو گنا اور اس سے بھی کہیں زیادہ بڑھا کردیا جائے گا۔ سو انصاف فی سبیل اللہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی و بہرہ مندی کا ایک اہم ذریعہ و وسیلہ ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویْرِیْدُ وَعَلٰی مَا یُحِبُّ وْ یَرِیْدُ وہوالہادی الی سواء السبیل ۔ پس عقل و نقل کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے مال کو صدق و اخلاص کے ساتھ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے خرچ کر کے آخرت کی اپنی اصل حقیقی اور ابدی زندگی کے لئے جمع کر دے اور اس کو اپنے لئے آخرت کا ابدی سرمایہ بنا دے ۔ اللہ توفیق بخشے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 101 اللہ تعالیٰ کے علم و آگہی کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا اور اللہ پوری طرح جانتا ہے ان سب کو۔ پس دنیا والوں سے تو اپنے نفاق کو یہ لوگ چھپاتے ہیں، مگر اس وحدہ لاشریک سے کیسے چھپائینگے، جو ان کے ظاہر اور باطن سب کو پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے ؟ ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اس سے ظاہر و باطن کی کسی بھی حالت اور کیفیت کو چھپانا ممکن نہیں۔ پس جو لوگ اس طرح کرتے ہیں وہ بڑی ہی ہولناک غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو کوشش ہمیشہ اسی بات کی ہونی چاہئے اور پورے صدق و اخلاص سے ہونی چاہئے کہ اس خالق ومالک کے ساتھ اپنا رشتہ وتعلق صحیح رہے۔ اور یہی وہ اولین اساس اور اصل بنیاد ہے جس پر جملہ امور کی صحت و استواری کا مدارو انحصار ہے۔ جو کوئی اپنے خالق ومالک سے اپنا تعلق صحیح رکھے گا وہ دوسروں کے ساتھ بھی اپنے تعلقات صحیح لائنوں پر استوار کرسکے گا۔ اور جس کا تعلق اپنے خالق ومالک کے ساتھ صحیح نہیں ہوگا، اس کا تعلق دوسروں کے ساتھ بھی صحیح نہیں ہوسکتا۔ سو تعلق مع اللہ کی صحت واستواری شاہ کلید ہے دوسرے تمام امور کی اصلاح کے ۔ اللہ فہذہ نواصینا بین یدیک فخذنا بہا الی ما تحب وترضی بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ ۔ یا ذا الجلال والاکرام یا من بیدہ ملکوت کل شیء وہو یجیر و لا یجار علیہ -
Top