Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو کہیں تم (نصاریٰ کی رہبانیت وغیرہ سے متاثر ہو کر) حرام نہ کردینا ان پاکیزہ چیزوں کو جو حلال فرمائی ہیں اللہ نے تمہارے لئے، اور حدوں سے نہیں بڑھنا، بیشک اللہ پسند نہیں کرتا حدوں سے بڑھنے والوں کو2
213 تحریم طیبات کی ممانعت : سو اہل ایمان کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ کہیں ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہیں ٹھہرادینا جو اللہ نے تمہارے لیے حلال فرمائی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ پاکیزہ چیزوں کو حرام کرنا تقویٰ کا تقاضا نہیں بلکہ کفران نعمت اور ناشکری کے زمرے میں آتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ صحیحین ۔ صحیح بخاری و مسلم ۔ وغیرہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام میں سے بعض حضرات نے غلبہ شہوت سے بچنے کے لئے کہا کہ ہم گوشت نہیں کھائیں گے اور قطع شہوت کے لئے دوسرے فلاں فلاں کام کریں گے۔ تو اس بارے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (بخاری : کتاب النکاح، مسلم : کتاب النکاح، ترمذی : کتاب التفسیر) جس کے ذریعے سے تحریم طیبات سے منع فرما دیا گیا۔ جس سے یہ عظیم الشان درس دیا گیا کہ تقویٰ و پرہیزگاری کا مطلب اور تقاضا یہ نہیں کہ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی پیدا کردہ اور مرحمت فرمودہ پاکیزہ چیزوں کو حرام قرار دیا جائے بلکہ اس واہب مطلق ۔ جل جلالہ ۔ کے اس کرم و احسان کا تقاضا یہ ہے کہ اسکی بخشی ہوئی ان پاکیزہ چیزوں کو اسی کی تعلیمات کے مطابق اور اس کی مقرر فرمودہ حدود کے اندر رہتے ہوئے صحیح طور پر استعمال میں لایا جائے اور ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اور اس کرم و احسان پر اس وحدہ لاشریک کا شکر بجا لایا جائے تاکہ اس طرح اس کی عطا فرمودہ یہ نعمتیں دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ بن جائیں۔ جیسا کہ ارشاد نبوی میں فرمایا گیا کہ " کھا کر شکر ادا کرنے والا ایسا ہے جیسے کہ روزہ رکھ کر صبر کرنے والا " ۔ " الطَّاعِمُ الشّاکِرُ کَالصَّائِمِ الصَّابِرِ " ۔ وَ باللّٰہ التَّوْفِیْقِ- 214 حدود سے تجاوز کرنے کی ممانعت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم حدوں سے نہیں بڑھنا کہ بیشک اللہ تعالیٰ حدوں سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یعنی ان حدود سے جو کہ شریعت مقدسہ نے تمہارے لئے مقرر فرمائی ہیں کہ ان میں خود تمہارا ہی بھلا ہے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور اس کے بعد آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی۔ اللہ پاک۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ نے جن چیزوں کو حرام فرمایا ہے وہ گنتی کی اور چند ایک ہیں۔ اور ان کی حیثیت اللہ تعالیٰ کی حدود کی ہے۔ ان کو پھلانگنا اور تجاوز کرنا ممنوع و محظور ہے۔ اور جو کوئی اپنی حماقت اور سرکشی کی بنا پر ان کو پھلانگے گا ۔ والعیاذ باللہ ۔ تو وہ معتدی اور ظالم ہوگا۔ جس کو اپنے کیے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہوگا۔ اور یہ ایک قطعی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور اگر غور کیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ دین و دنیا کے ہر معاملے میں اصل چیز حدود کی پابندی ہی ہے۔ اور حدود سے تجاوز میں خرابی و فساد۔ اس لیے قرآن حکیم میں جگہ جگہ حدود کی پابندی اور ان کے التزام کا درس دیا گیا ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top