Tafseer-e-Madani - At-Talaaq : 3
وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ١ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا
وَّيَرْزُقْهُ : اور رزق دے گا اس کو مِنْ حَيْثُ لَا : جہاں سے، نہ يَحْتَسِبُ : وہ گمان کرتا ہوگا وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ : اور جو بھروسہ کرے گا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَهُوَ حَسْبُهٗ : تو وہ کافی ہے اس کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ بَالِغُ اَمْرِهٖ : پہنچنے والا ہے اپنے حکم کو قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ : تحقیق بنادیا اللہ نے لِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کے لیے قَدْرًا : ایک اندازہ
اور وہ اس کو وہاں سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوگا2 اور جو کوئی (صحیح معنوں میں) بھروسہ کرے گا اللہ پر تو وہ اس کو کافی ہے (تمام مہمات کے لئے) بیشک اللہ پورا کر کے رہتا ہے اپنا کام یقینا اللہ نے مقرر فرما رکھا ہے ہر چیز کا ایک خاص اندازہ3
[ 14] تقوی و پرہیزگاری پر رزق بےگماں کی بشارت کا ذکر وبیان۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس کو وہ روزی وہاں سے دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوگا روایات میں وارد ہے کہ حضرت عوف بن مالک الاشجعی ؓ نے نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ دشمن ان کے بیٹے سالم کو پکڑ کرلے گئے ہیں جس سے ان کی اہلیہ یعنی سلام کی والدہ کا برا حال ہو رہا ہے نیز انہوں نے نبی کی خدمت میں اپنے اس فقر وفاقہ کی بھی شکایت کی جس سے وہ اس وقت دو چار تھے اس پر نبی نے ان کو اسی ہدایت وتعلیم کی راہنمائی فرمائی جو کہ اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمائی گئی ہے کہ تم دونوں میاں بیوی تقوی کو لازم پکڑو صبر سے کام لو اور لا حول ولا قوت الا باللہ۔ کی کثرت رکھو چناچہ حضرت عوف نے گھر جا کر جب اپنی بیوی کو نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد سنایا تو انہوں نے کہا کہ بہت بہتر تعلیم ہے جو نبی کریم ﷺ نے ہمیں ارشاد فرمائی ہے اور اس کے بعد انہوں نے اس وظیفہ کی کثرت رکھی جس کے کچھ ہی دنوں کے بعد ان کے بیٹے نے اچانک گھر پہنچ کر ان کا دروازہ کھٹکھٹایا دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ان کا بیٹا سالم کھڑا ہے اور اس کے ساتھ ایک سو اونٹوں اور بکریوں کا ریوڑ بھی ہے پھر اس نے بتایا کہ اس نے اپنے دن دشمنوں کو غفلت میں پایا تو اپنی قید کے بندھنوں کو توڑ کر ان کے ان مال مویشی کو ساتھ لے کر وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی مگر حکم بہرحال عام ہے۔ (ابن جریر ابن کثیر، قرطبی مراغی، اور صفوہ وغیرہ) وبا اللہ التوفیق لما یحب ویرید، علی ما یحب ویرید، وھوالھادی الی سواء السبیل۔ [ 16] اللہ تعالیٰ اپنا کام بہرحال پورا کر کے رہتا ہے۔ سبحانہ وتعالی۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ پورا کر کے رہتا ہے اپنے کام کو یقینا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک خاص اندازہ مقرر فرما رکھا ہے سو اس نے اپنا کام بہر حال کرکے رہنا ہے اس کے لیے نہ کوئی رکاوٹ ہوسکتی ہے اور نہ مزاحمت۔ اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے، وھو علی کل شی قدیر، سو اس قادر مطلق اور واہب مطلق پر توکل اور سچا پکا اعتماد بھروسہ ایسی شاہ کلید ہے کہ اس سے مشکلات سے نکلنے کے لیے بند دروازے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں جیسا کہ سنن ترمذی وغیرہ کی روایت میں وارد ہوا ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگ اللہ پر ایسا توکل اور بھروسہ رکھو جیسا کہ اس پر توکل اور بھروسہ کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو ایسے روزی دے جیسا کہ پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں لو انکم توکلتم علی اللہ حق توکلہ لرزقکم کما یرزق الطیر تغدوا خماصا وتروح یطانا۔ مگر افسوس کہ قرآن وسنت کی ان صاف وصریح نصوص اور طرح طرح کی تاکیدات کے باوجود آج کلمہ گو مشرک کا حال اس سے یکسر مختلف ہے اس کا بھروسہ کہیں کسی خود ساختہ سروکار پر ہے اور کہیں کسی من گھڑت اور بناوٹی آستانے پر، اور کہیں کسی اور بناوٹی خیالی اور فرضی چیز پر وہ طرح طرح کی ہستیوں کو پکارتا، ان کی دہائی دیتا اور ان کے نام جپتا ہے مگر وہ اپنے اللہ کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے بلانے پکارنے کے لیے تیار نہیں، یا علی مدد اور پیر دستگیر جیسے شرکیہ نعرے تو وہ لگائے گا اور زور شور سے لگائے گا لیکن یا اللہ مدد کہنے کی توفیق اس کو نہیں ہوگی۔ الا ماشاء اللہ العظیم والعیاذ باللہ العظیم اللہ ہمیں اور ہر طرح سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔
Top