Tafseer-e-Madani - At-Tahrim : 10
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍ١ؕ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا وَّ قِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ
ضَرَبَ اللّٰهُ : بیان کی اللہ نے مَثَلًا : ایک مثال لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا : ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا امْرَاَتَ : بیوی کی نُوْحٍ : نوح کی وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ : اور لوط کی بیوی کی كَانَتَا : وہ دونوں تھیں تَحْتَ عَبْدَيْنِ : ماتحت دو بندوں کے مِنْ : سے عِبَادِنَا : ہمارے بندوں میں (سے) صَالِحَيْنِ : دونوں نیک تھے فَخَانَتٰهُمَا : تو ان دونوں نے خیانت کی ان سے فَلَمْ يُغْنِيَا : تو نہ وہ دونوں کام آسکے عَنْهُمَا : ان دونوں کو مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے شَيْئًا : کچھ بھی وَّقِيْلَ ادْخُلَا : اور کہہ دیا گیا دونوں داخل ہوجاؤ النَّارَ : آگ میں مَعَ الدّٰخِلِيْنَ : داخل ہونے والوں کے ساتھ
اللہ نے مثال بیان فرمائی کافروں (کی عبرت) کے لئے نوح اور لوط کی بیویوں کی یہ دونوں ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں مگر انہوں نے ان دونوں سے خیانت (اور بددیانتی) کا ارتکاب کیا تو وہ دونوں بھی (اتنے بڑے مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود) اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے اور (ان دونوں عورتوں سے) کہہ دیا گیا کہ تم دونوں بھی داخل ہوجاؤ دوزخ میں دوسرے داخل ہونے والوں کے ساتھ
[ 20] کافروں کی عبرت کے لیے ایک مثال ذکر وبیان۔ سو ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے نوح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کی مثال بیان فرمائی کہ جس طرح ان دونوں کو اپنے کفر و عقیدہ بد کی بناء پر اتنے عظیم الشان پیغمبر کی زوجیت کا رشتہ جو کہ ایک نہایت ہی عظیم الشان رشتہ ہوتا ہے کچھ بھی کام نہ آسکا اسی طرح دور حاضر کے ان کفار و مشرکین کو بھی اپنے کفر و شرک اور عقائد باطلہ کی بناء پر اہل ایمان کی قرابت ورشتہ داری کچھ کام نہ آسکے گی والعیاذ باللہ العظیم۔ سو آدمی کو کام آنے والی چیزیں اس کا اپنا ایمان اور عمل ہے جن کے پاس یہ پونجی نہیں ہوں گی والعیاذ باللہ تو ان کو کسی بڑے سے بڑے کی نسبت بھی کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ نوح اور لوط کی بیویاں ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں لیکن انہوں نے ان پر ایمان لانے اور ان کا اسوہ اختیار کرنے کی بجائے ان سے خیانت اور بےوفائی کی جس کے نتیجے میں رسولوں کی بیویاں ہونے کے باوجود ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بھی داخل ہوجاؤ دوزخ میں دوسرے داخل ہونے کے ساتھ والعیاذ باللہ العظیم سو یہ مثال کافروں کی عبرت پذیری اور سبق آموزی کے لیے بیان فرمائی گئی ہے کہ ایمان سے محروم اور کفر و شرک کے مرتکب لوگوں کو کسی بڑی سے بری رشتہ داری سے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا بلکہ نجات کا اصل دارومدار انسان کے اپنے عمل و کردار پر ہے۔ وبا اللہ التوفیق لما یحب ویرید۔ ارشاد فرمایا گیا کہ ان دونوں نے ان سے خیانت کی یعنی انہوں نے دین میں خیانت اور بددیانتی کا ارتکاب کیا کہ ایمان لانے کی بجائے وہ اپنے کفر پر ہی اڑی رہیں و یہاں پر خیانت سے یہی خیانت مراد ہے اور جس نے یہاں اس خیانت سے اخلاقی خیانت مراد لی ہے اس نے غلط کہا ہے کیونکہ حضرات انبیاء کرام کی بیویوں میں سے کوئی بھی کبھی اس طرح کی کسی خیانت میں مبتلا نہیں ہوئی جیسا کہ حضڑت ابن عباس نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ (ابن کثیر ابن جریر، جامع البیان، اور صفوہ التفاسیر) البتہ وہ دونوں اپنے شوہروں کی راز دار اور وفا دار نہیں تھیں روایات میں آتا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی ان کے پاس آنے والے مہمانوں کے بارے میں غنڈوں کو خبر دیتی تھی جس سے وہ لوگ حضرت لوط کے گھر پر دھاوا بول دیتے تھے سو ان کی اسی قسم کی بےوفائیوں کو یہاں پر خیانت سے تعبیر فرمایا گیا سو یہاں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے ورنہ ان دونوں پیغمبروں کی بیویاں اس طرح نہ ہوتیں۔ پس مختار کل اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ سبحانہ وتعالی۔ [ 21] پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے، علیھم الصلوات والسلام۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے کہ جو چاہیں کریں جس طرح کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے کہ یہاں پر پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) جیسے عظم الشان اور جلیل القدر پیغمبروں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ وہ دونوں ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے شئیانکرہ تحت النفی۔ عموم وشمول کا فائدہ دیتا ہے اس لیے ہم نے ترجمہ بھی اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ دونوں حضرت اتنے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر ہونے کے باوجود اپنی بیویوں کو کچھ بھی کام نہ آسکے سو اسس سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوا کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے جس طرح اہل بدعت کا کہنا ہے اور دوسری طرف اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اللہ پاک کے سوا اور کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں ہوسکتا کہ جب دونوں یہ عظیم الشان اپنی بیویوں کے بھی کچھ کام نہیں آسکے اور ان کے شرف زوجیت سے بھی ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا تو پھر اور کون ہوسکتا ہے جو مافوق الاسباب طور پر کسی کی حاجت روائی ومشکل کشائی کا دم بھر سکے اور تیسری طرف اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ ہدایت وغوایت اللہ ہی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے وہ جس کو چاہیے ہدایت سے نوازے کہ وہی جانتا ہے کہ کون کس کے لائق ہے اور کس کے باطن کی کیفیت کیا ہے وہ اسی کے مطابق معاملہ فرماتا ہے۔ سبحانہ وتعالی، یضل من یشاء ویھدی من یشاء۔ اسی وحدہ لاشریک کی شان ہے سبحانہ وتعالی بہر کیف اس میں تصریح فرمادی گئی کہ نوح اور لوگ دونوں کی بیویوں کو دوزخ میں داخلے کا حکم دے دیا گیا بغیر کسی رو رعایت اور بدوں کسی فرق امتیاز کے کہ جرم میں تم شریک ہو پس سزا بھی تم دونوں کو ایک برابر ملے گی والعیاذ باللہ العظیم۔ اور اس کے کہنے سے مراد یہ ہے کہ ان کی موت کے وقت ان سے ایسے کہا گیا یا قیامت کے روز کہا جائے گا (محاسن التاویل، صفوہ التفاسیر، اور جامع البیان وغیرہ) سو تحقیق وقوع کی بنا پر اس بات کو ماضی کے صیفے سے تعبیر فرمایا گیا ہے بہر کیف بتانا یہ مقصود ہے کہ پیغمبر کی زوجیت ان کے کچھ کام نہ آسکی کیونکہ انہوں نے پیغمبر کا طریقہ نہیں اپنایا تھا جو کہ اصل مقصد ہے سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ کس قدر بہکے بھٹکے اور ابلیس لعین کے حال میں کس طرح پھنسے اور الجھے ہوئے ہیں جو لوگ یہ کہتے ہیں فلاں شخص چونکہ سید زادہ اور صاحبزادہ اور پیر زادہ وغیرہ ہے لہذا وہ جو چاہے کرے اور جیسا چاہے کرے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ سو یہ سب کچھ ابلیس کا دھوکہ ہے جس میں وہ کوئی پرواہ نہیں سو یہ سب ابلیس کا دھوکہ جس سے وہ ایسے لوگوں کو پھنساتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر اس لعین کے اس مکروفریب کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا یعدھم ویمنیھم وما یعدھم الشیطان الاغرورا۔ (النساء 120، پارہ 5) وہ جب پیغمبر کی زوجیت کا رشتہ خود ان کی بیویوں کے بھی کام نہ آسکا تو پھر اور کسی کے لیے ایسے کسی تصور کی کیا گنجائش ہوسکتی ہے ؟ سو کام آنے والی چیز انسان کا خود اپنا ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار ہے اور بس۔ وبا اللہ التوفیق۔
Top