Tafseer-e-Madani - At-Tahrim : 3
وَ اِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِیْثًا١ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَ اَظْهَرَهُ اللّٰهُ عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٗ وَ اَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ١ۚ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ هٰذَا١ؕ قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ
وَ : اور اِذْ : جب اَسَرَّ النَّبِيُّ : چھپایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ : طرف اپنی بعض بیویوں کے حَدِيْثًا : ایک بات کو فَلَمَّا : تو جب نَبَّاَتْ بِهٖ : اس نے خبر دی اس کی وَاَظْهَرَهُ اللّٰهُ : اور ظاہر کردیا اس کو اللہ نے عَلَيْهِ : اس پر عَرَّفَ : اس نے بتادیا۔ جتلا دیا بَعْضَهٗ : اس کا بعض حصہ وَاَعْرَضَ : اور اعراض برتا عَنْۢ بَعْضٍ : بعض سے فَلَمَّا نَبَّاَهَا : تو جب آپ نے خبر دی اس (بیوی) کو بِهٖ : ساتھ اس بات کے قَالَتْ : بولی مَنْ اَنْۢبَاَكَ : آپ کو کس نے بتایا ہے۔ آپ کو کس نے خبر دی ہے هٰذَا : اس کی قَالَ نَبَّاَنِيَ : فرمایا خبر دی مجھ کو الْعَلِيْمُ : علم والے الْخَبِيْرُ : خبر والے نے
اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بیوی سے ایک بات راز میں کہی پھر جب وہ اس بات کی خبر (دوسری بی بی کو) کر بیٹھیں اور اللہ نے اس کو ظاہر فرما دیا اپنے پیغمبر پر تو پیغمبر نے اس کا کچھ حصہ تو جتلا دیا اور کچھ سے چشم پوشی فرما لی سو جب پیغمبر نے ان کو وہ بات جتلائی تو وہ کہنے لگیں کہ آپ کو اس کی خبر کس نے دی ؟ تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ مجھے اس ذات نے خبر دی ہے جو (سب کچھ) جاننے والی (ہر شئ سے) پوری طرح باخبر ہے
[ 3] بعض ازواج مطہرات کے احتساب کا ذکر وبیان۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ بھی یاد کرو جب پیغمبر نے اپنی ایک ہی بیوی کو ایک بات راز میں کہی مگر وہ اسکا افشاء کر بیٹھیں تو وحی کے ذریعے خبر پانے پر پیغمبر نے اس بات کا کچھ حصہ ظاہر فرما دیا اور کچھ سے چشم پوشی فرمائی اپنے کریمانہ اخلاق کی بنا پر کیونکہ کریم کی صفت اور شان یہی ہوتی ہے کہ وہ ساری بات نہیں کہہ دیتا، فان الکریم لایستقصی قط۔ (قالہ الحسن، روح، خازن، صفوہ وغیرہ) سو نبی نے اپنی بیوی صاحبہ کا احتساب تو فرمایا کہ یہ دین کا تقاضا تھا لیکن اس میں بھی شدت اور سختی کے پہلو کو نہیں رحمت ورافت کے طریقہ کو اختیار کیا کیونکہ ایک تو آپ کی ذات اقدس تھی وہی سراپا رحمت ورافت اور شرافت و ہمدردی کا مجسمہ وپیکر اور دوسرے اس لیے کہ معاملہ آپ کی زوجہ مطہرہ سے متعلق تھا اور آپ کی ازواج مطہرات میں سے کسی کے بارے میں یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی ایسی کوئی بھی بات کسی ارادی غلطی یا بدنیتی پر مبنی تھی اور یہاں پر ان بیوی صاحبہ کی یہ لغزش بھی محض از دیاد محبت اور غایت انس وتعلق کی بناء پر تھی اس لیے حضور نے شفقت کا طریقہ اختیار فرمایا سو ان کا ارادہ خیال چونکہ نیک نیتی ہی پر مبنی تھا۔ اس میں کسی قسم کے فساد ونیت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اس لیے کوئی سختی نہیں فرمائی گئی لیکن معاملہ چونکہ ازواج مطہرات کا تھا جو امت کی تمام عورتوں کے لیے نمونہ تھیں نیز اس معاملے کا تعلق پیغمبر سے تھا جو کہ صرف شوہر ہی نہیں تھے بلکہ اللہ کے رسول بھی تھے اور رسول بھی جو تمام رسولوں کے مقتداء و پیشوا تھے اور جن کی تعلیمات مقدسہ اور اسوہ حسنہ نے قیامت تک باقی رہنا تھا اس لیے ان زوجہ مطہر کی گرفت تو فرمائی گئی اور ان کا احتساب تو ہوا لیکن اس طرح نہیں کہ اس میں کسی طرح کی کوئی فضیحت ہو بلکہ نہایت ہی معقول اور پر لطف طریقے سے ہوا۔ والحمدللہ جل وعلاء۔ [ 4] بعض عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت کا ذکر وبیان۔ سو اس سے پیغمبر کی زوجہ مطہرہ کے سوال اور اس ملنے والے پیغمبر کے جواب سے بعض عظیم الشان در سہائے عبرت و نصیحت سامنے آتے ہیں چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ جب آپ کی زوجہ مطہرہ نے آپ سے عرض کیا کہ آپ کو یہ بات کس نے بتلائی ؟ یعنی حضرت حفصہ نے اور شاید انہوں نے آپ سے یہ اس پر پوچھا ہو کہ شاید حضرت عائشہ نے آپ کو اس کی خبر کردی ہو ؟ (المراغی وغیرہ) نبی نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تو اس علیم وخبیر نے بتایا یعنی اللہ پاک سبحانہ وتعالی نے جو کہ نہاں وعیاں سب ایک برابر جانتا ہے سو یہاں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ازواج مطہرات کا عقیدہ بھی عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق یہی تھا کہ پیغمبر عالم غیب نہیں ہوتے بلکہ علم غیب خاصہ خداوندی ہے ورنہ وہ آپ سے اس طرح سوال نہ کرتیں کہ آپ کو یہ کس نے بتایا ؟ (من انباءک ھذا) اور پیغمبر نے بھی آگے جواب میں نہیں فرمایا کہ میں خود جانتا ہوں کہ میں غالم غیب ہوں سو انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی بلکہ ان کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ مجھے خدائے علیم خبیر نے بتایا پس یہ پورا واقعہ اہل بدعت کے علم غیب کلی اور اختیار کلی جیسے شرکیہ عقیدوں کی جڑ کاٹ دیتا ہے کیونکہ اگر آپ عالم غیب ہوتے تو نہ تو یہ قصہ پیش آتا نہ ہی حضرت عائشہ وحفصہ خفیہ طور پر ایسی بات طے کرتیں اور نہ ہی اللہ پاک کی طرف سے یا ایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک کے اس آمیز خطاب سے آپ کو خطاب کیا جاتا پس معلوم ہوا کہ کہ اہل بدعت کے اس طرح کے شرکیہ عقائد عقل و فطرت کے بھی خلاف ہیں اور نصوص کتاب وسنت سے بھی معارض و متصادم۔ والعیاذ باللہ اللہ تعالیٰ سب کو حق و ہدایت کی سمجھ نصیب فرمائے آمین اور ہر طرح زیغ و انحراف اور شرک و شرکیات سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور اتباع سنت اور طریقہ سلف پر چلنے کی توفیق بخشے آمین ثم آمین۔ بہر کیف پیغمبر کی زوجہ مطہرہ کے اس سوال اور اس پر پیغمبر کی طرف سے ملنے والے جواب میں عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہیں جو عقائد و اخلاق کی اصلاح میں بڑی اہم اور بنیادی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ کچھ ان لوگوں کے لیے ہے جو عقل سلیم اور فطرت مستقیم کے تقاضوں کو اپناتے ہیں۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید، سبحانہ وتعالی۔
Top