Madarik-ut-Tanzil - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
انصاف کے دن کا حاکم
مٰلِكِ : عاصم وعلی (رحمہما اللہ) ان دونوں کے علاہ ملک پڑھتے ہیں، بعض نے اسی کو اختیار کیا کیونکہ اس میں اضافت کی ضرورت نہیں اور قرآن مجید میں (لمن الملک الیوم) غافر :16 ۔ میں اس طرح ہے، اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک مالک ہوتا ہے مگر ہر مالک ملک نہیں ہوتا، اور دوسری وجہ یہ بھی ہے، ملک کا حکم مالک پر نافذ ہوتا ہے اس کا عکس نہیں۔ بعض نے کہا مالک کا ثواب زیادہ ہے، کیونکہ اس میں حروف زیادہ ہیں، امام ابوحنیفہ اور امام حسن نے ملک پڑھا ہے۔ قیامت کا دن کیا ہے ؟ يَوْمِ الدِّيْنِ ۔ بدلے کا دن، کہا جاتا ہے کما تدین تدان، جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، یہاں اسم فاعل کو بطور توسع ظرف کی طرف مضاف کیا ہے، جیسا کہتے ہیں : یا سارق اللیلۃ اھل الدار (اے رات کو گھر میں چوری کرنے والے) اب معنی یہ ہوگا قیامت کے دن تمام اختیارات کا مالک۔ سوال : قیامت کے دن کے ساتھ ملکیت کی تخصیص کیوں کی گئی۔ جواب : کیونکہ اختیار اس دن فقط اللہ ہی کے لیے ہوگا۔ سوال : قیامت کے واقع ہونے کو معرفہ کی صفت کے طور پر ذکر کیا حالانکہ اسم فاعل کی اضافت تو غیر حقیقی ہے۔ جواب : کیونکہ اس سے مقصود استمرار ہے پس اضافت حقیقی بن گئی، اور اس کو اس طرح اس لئے لائے تاکہ معرفہ کی صفت بن سکے۔ سوال : یہ صفات جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے استعمال کی گئی ہیں، مثلا رب ہونا یعنی تمام جہانوں کا مالک ہونا اور تمام انعامات دینے والا ہونا، اور ثواب و عذاب کے دن تمام اختیارات کا مالک ہونا وغیرہ حالانکہ الحمدللہ سے ہی ثابت ہوچکا کہ حمد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات خاص ہے، کیا وجہ ہے ؟ جواب : درحقیقت یہ بات ثابت کرنے کے لیے کہ جس ذات کی یہ صفات ہوں اس سے بڑھ کر حمد و ثنا کا کوئی مستحق نہیں۔
Top