Madarik-ut-Tanzil - Al-Kahf : 17
وَ تَرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ اِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِّنْهُ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ١ؕ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ١ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا۠   ۧ
وَتَرَى : اور تم دیکھو گے الشَّمْسَ : سورج (دھوپ) اِذَا : جب طَلَعَتْ : وہ نکلتی ہے تَّزٰوَرُ : بچ کر جاتی ہے عَنْ : سے كَهْفِهِمْ : ان کا غار ذَاتَ الْيَمِيْنِ : دائیں طرف وَاِذَا : اور جب غَرَبَتْ : وہ ڈھل جاتی ہے تَّقْرِضُهُمْ : ان سے کترا جاتی ہے ذَاتَ الشِّمَالِ : بائیں طرف وَهُمْ : اور وہ فِيْ : میں فَجْوَةٍ : کھلی جگہ مِّنْهُ : اس (غار) کی ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں مَنْ : جو۔ جسے يَّهْدِ : ہدایت دے اللّٰهُ : اللہ فَهُوَ الْمُهْتَدِ : پس وہ ہدایت یافتہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلْ : وہ گمراہ کرے فَلَنْ تَجِدَ : پس تو ہرگز نہ پائے گا لَهٗ : اس کے لیے وَلِيًّا : کوئی رفیق مُّرْشِدًا : سیدھی راہ دکھانے والا
اور جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ (دھوپ) ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جائے اور جب غروب ہو تو ان سے بائیں طرف کترا جائے اور وہ اس کے میدان میں تھے۔ یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے۔ جس کو خدا ہدایت دے وہ ہدایت یاب ہے اور جس کو گمراہ کردے تو تم اسکے لیے کوئی دوست راہ بتانے والا نہ پاؤ گے۔
قراءت : مدنی و شامی نے مَرْفِقًا پڑھا ہے۔ کیفیت ِغار : 17: وَتَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰ وَرُ (اے مخاطب تم دیکھو گے کہ دھوپ جب نکلتی ہے تو ان کے غار سے دائیں جانب کو بچھی جاتی ہے) قراءت : کوفی نے تَزْوَرُ پڑھا ہے۔ اور شامی نے تَزَّاور اور دیگر نے تز اور۔ اس کی اصل تتز اور ہے۔ تخفیف کردی تاءؔ کو زاء میں ادغام کر کے یا پھر اس کو حذف کردیا۔ یہ تمام الزور سے ہے اور وہ میلان کو کہا جاتا ہے اور اسی سے زارہ کہتے ہیں جبکہ وہ اس کی طرف مائل ہو۔ الزور (جھوٹ) سچ سے میلان اختیار کرنا۔ عَنْ کَھْفِھِمْ (ان کے غار سے) اس سے مائل ہوجاتا اور اس کی شعاعیں ان پر نہ پڑتیں۔ ذَاتَ الْیَمِیْنِ (دائیں جانب) اور حقیقت میں اس سے مراد وہ جہت ہے جس کا نام یمین رکھا جاتا ہے۔ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُہُمْ (اور جب غروب ہوتی تو ہٹی رہتی) تقرضہم کا معنی ہے کہ کاٹتا ان کو یعنی ان کو چھوڑتا اور ان سے پھرجاتا۔ ذَاتَ الشِّمَالِ وَھُمْ فِیْ فَجْوَۃٍ مِّنْہُ (بائیں طرف سے اس حال میں کہ وہ غار کے وسیع مقام میں تھے) غار کے وسیع حصہ میں مطلب یہ ہے کہ وہ سائے میں تھے۔ تمام دن طلوع سے غروب تک سورج کی دھوپ ان کو نہ پہنچتی تھی۔ اس کے باوجود کہ وہ غار کے کھلے و وسیع مقام میں تھے۔ جو دھوپ کے پہنچ جانے کی جگہ تھی اگر اللہ تعالیٰ سورج کی دھوپ کو نہ روکتے۔ نمبر 2۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ غار کی ایسی کشادہ جگہ میں تھے۔ جہاں ہوا کے جھونکے اور نسیم کی ٹھنڈک ان کو پہنچتی جس سے غار کی گھٹن ان کو محسوس نہ ہوتی تھی۔ ذٰلِکَ (یہ) جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سلسلہ میں سورج کے میلان کا معاملہ کیا۔ اور طلوع و غروب میں ان سے پھر کر گزرنا یہ ایک نشانی تھیمنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ (اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے) یعنی جو اس جانب میں تھا۔ اس جانب کو دھوپ پہنچتی مگر خود ان کو کرامت کے طور پر دھوپ نہ پہنچتی تھی۔ نمبر 2۔ دوسرا قول یہ بھی ہے غار کا دروازہ شمالی جانب نبات نعش کے سامنے تھا۔ پس وہ ایسے مقام میں تھے۔ جہاں سورج کی شعاعیں کبھی نہیں پڑتیں۔ اس صورت میں آیات اللہ کا مطلب یہ ہے کہ ان کی حالت اور بات یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے۔ جو اللہ کا ہوا اللہ اس کا ہوگیا : مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ (جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے وہ ہدایت پانے والا ہے) ۔ جیسا کہ سبحان الذی اسرٰی میں گزرا۔ یہ درحقیقت ان کی تعریف ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر جہاد کیا۔ اور اپنے آپ کو اس کے سپرد کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بلند کرامت کو پانے کیلئے ان کی راہنمائی کردی۔ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا (جس کو وہ گمراہ کر دے پس ہرگز تم اس کے لئے کوئی مددگار و راہنما نہ پائو گے) جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے پس اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
Top