Madarik-ut-Tanzil - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کردوں گا۔
کل کا وعدہ انشاء اللہ سے کرو : 23: وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْ ئٍ (اور آپ کسی کام کی نسبت یوں نہ کہا کریں کہ میں اس کو کل کردونگا) کسی چیز کے متعلق تو پختہ ارادہ کرے اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ (کہ بیشک میں اس کو کرنے والا ہوں) اس چیز کو غَدًا ( کل زمانہ مستقبل میں) خاص کل کا دن مراد نہیں۔ اِلَّآ اَنْ یَّشَآ ئَ اللّٰہُ (مگر یہ کہ چاہے اللہ تعالیٰ ) نمبر 1۔ آپ اس وقت کہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی اجازت دے دیں۔ نمبر 2۔ تم ہرگز اس کو نہ کہو مگر یہ کہ چاہے اللہ یعنی اس کی مشیت سے۔ یہ حال واقع ہے۔ تقدیر عبارت اس طرح ہوگی الا متلبسًابِمَشِیّۃ اللّٰہ قائلا ان شاء اللّٰہمگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ملا ہوا ہو تم کہنے والے ہو، انشاء اللّٰہ زجاج کا قول : اس کا معنی یہ ہے تم ہرگز نہ کہو کہ میں اس کو کروں گا مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت سے۔ کیوں کہ جب کہا جائے انا افعل ذلک ان شاء اللّٰہتو اس کا مطلب ہے کہ میں اس کو نہیں کرونگا مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت سے۔ یہ نہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تادیب کیلئے ہے۔ جبکہ یہود نے قریش کو کہا تم اس سے روح ٗاصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق سوال کرو۔ انہوں نے سوال کیا آپ نے فرمایا تم کل میرے پاس آجائو میں تمہیں بتلا دوں گا۔ اور آپ نے استثناء نہ کیا۔ پس وحی میں دیر ہوگئی یہاں تک کہ آپ پر گراں گزرا۔
Top