Madarik-ut-Tanzil - Al-Kahf : 30
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًاۚ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور نہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک اِنَّا : یقیناً ہم لَا نُضِيْعُ : ہم ضائع نہیں کریں گے اَجْرَ : اجر مَنْ : جو۔ جس اَحْسَنَ : اچھا کیا عَمَلًا : عمل
(اور) جو ایمان لائے اور کام بھی نیک کرتے رہے تو ہم نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے
30، 31: اب ان لوگوں کے بدلہ کا تذکرہ فرمایا جنہوں نے ایمان کو چنا پس فرمایا اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَانُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا اُولٰٓپکَ لَھُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ (بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے تو ہم انکا اجر ضائع نہ کریں گے۔ جنہوں نے اچھی طرح کام کیے ایسے لوگوں کیلئے ہمیشہ رہنے کے باغات ہونگے) یہ جملہ مستانفہ ہے اس میں اجر مبہم کو بیان فرمایا۔ نحو : انا لانُضِیْعُاور اُولٰئِکَدونوں کو اکٹھی خبریں بنایا جائے۔ مطلب یہ ہے جو ان میں سے اچھے عمل والے ہیں جیسا کہ کہتے ہیں السمن منوان بدرھم۔ نمبر 2۔ کیونکہ من احسن عملاً اور الذین امنوا وعملوا الصالحات دونوں کو ایک معنی اپنے اندر پرونے والا ہے۔ اس لئے من احسنؔ کی بجائے ضمیر لائے۔ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْھٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَھَبٍ (جن کے درختوں کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہاں اہل جنت کو سونے کے کنگنوں کا زیور پہنایا جائے گا) نحو : من ابتدائیہ ہے اور اَسَاوِرَ کو جو جمع اَسْوِرَۃٌ کی ہے۔ اور وہ سوار کی جمع ہے کو نکرہ لائے کیونکہ اَحْسَنَ میں انکا معاملہ مبہم ہے مِنْ ذَھَبٍ میں منؔ تبیین کیلئے ہے۔ وَّ یَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ (وہ سبز رنگ، باریک ریشم کے کپڑے) سندسؔ بمعنی باریک ریشموَّ اِسْتَبْرَقٍ (اور موٹا ریشم) دونوں اقسام کو جمع کرنے والے ہونگے مُّتَّکِئِیْنَ فِیْھَا عَلَی الْاَرَآ ئِکِ (اور مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے) اتکاء کو خاص طور پر اس لئے ذکر کیا کیونکہ یہ خوش حال لوگوں اور بادشاہوں کی ہیئت ہے کہ وہ اونچے تختوں پر تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں۔ نِعْمَ الثَّوَابُ (کیا خوب صلہ ہوگا) یعنی جنت وَحَسُنَتْ (اور بہت خوب ہے) جنت اور مسہریاں مُرْتَفَقًا (آرام گاہ ہونے کے لحاظ سے) تکیہ گاہ ہونے کے اعتبار سے۔
Top