Madarik-ut-Tanzil - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (حال) رَّجُلَيْنِ : دو آدمی جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِاَحَدِهِمَا : ان میں ایک کے لیے جَنَّتَيْنِ : دو باغ مِنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّحَفَفْنٰهُمَا : اور ہم نے انہیں گھیر لیا بِنَخْلٍ : کھجوروں کے درخت وَّجَعَلْنَا : اور بنادی (رکھی) بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان زَرْعًا : کھیتی
اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کیے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی
اچھے برے انجام کی مثال کیلئے دو بھائیوں کا واقعہ : 32: وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَـلًا رَّجُلَیْنِ (اور آپ ان کے سامنے ان دو آدمیوں کا حال بیان کریں) کفار اور مؤمنین کے حال کی مثال بنی اسرائیل کے دو آدمیوں کی ہے جو بھائی تھے ایک ان میں کافر جس کا نام قطر وس تھا۔ اور دوسرا مسلمان جس کا نام یہودا تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ وہ دو آدمی ہیں جن کا تذکرہ سورة الصافات کی اس آیت میں ہے۔ قال قائل منہم انی کان لی قرین ] الصّافات : 51[ ان دونوں کو باپ کی وراثت میں آٹھ ہزار دینار ملے۔ انہوں نے اس کے دو حصے کئے۔ کافر نے ایک ہزار کی زمین خریدی مومن نے کہا اے اللہ میرے بھائی نے ایک ہزار دینار کی زمین دنیا میں لی ہے۔ میں ایک ہزار دینار کی زمین جنت سے خریدتا ہوں۔ اس نے وہ صدقہ کردیے پھر اس کے بھائی نے ایک ہزار میں کوٹھی تعمیر کی تو دوسرے نے کہا اے اللہ میں ایک ہزار دینار کے بدلہ جنت کا مکان خریدتا ہوں۔ وہ بھی صدقہ کردیئے۔ اس کے کافر بھائی نے ایک ہزار دینار خرچ کر کے شادی کی۔ تو مسلمان نے کہا اے اللہ میں ایک ہزار کو جنت کی حور کا مہر بناتا ہوں (اس کو صدقہ کردیا) پھر اس کے کافر بھائی نے ایک ہزار دینار میں گھر کا سامان و اثاثہ اور خدام خریدے۔ تو اس مسلمان نے کہا اے اللہ میں نے جنت کے دو ولدان تجھ سے خرید لیے۔ اور ان کو بھی صدقہ کردیا۔ پھر اس مسلمان کو کوئی ضرورت پیش آئی تو بھائی کے راستہ میں بیٹھ گیا وہ اپنے نوکروں چاکروں کے ساتھ گزرا۔ وہ اس کے سامنے آیا اس نے دور بھگا دیا اس کو مال صدقہ کردینے پر ڈانٹ ڈپٹ کی۔ جَعَلْنَا لِاَ حَدِھِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ (ان دو شخصوں میں سے ایک کیلئے ہم نے انگور کے دو باغ دیئے) انگوروں کی بیلوں کے دو باغ وَّحَفَفْنٰـھُمَا بِنَخْلٍ (اور ہم نے ان دونوں باغوں کا کھجور کے درختوں سے احاطہ بنا رکھا تھا) ان دونوں باغوں کے اردگرد کھجور کے درخت تھے۔ انگوروں کی بیلوں والے اس بات کو زیادہ پسند کرتے ہیں کہ پھل دار درخت باڑ کے طور پر لگے ہوں کہا جاتا ہے حفوہ جبکہ وہ اس کے گردا گرد لگائیں اور حففتہٗ بہم ای جعلتھم حافین حولہ میں نے ان کو اس کے گرد گھیرا لگانے والا کردیا۔ یہ ایک مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ اور باؔ اس میں دوسرے مفعول کا اضافہ کردیتی ہے۔ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَہُمَا زَرْعًا (اور ان دونوں کے درمیان کھیتی پیدا کردی) درمیان والی زمین کو ہم نے فروٹ و خوراک کا جامع بنادیا۔ تعمیر کی تعریف اس طرح فرمائی کہ وہ آپس میں جال کی طرح ملی ہوئی متصل ہے۔ کوئی چیز ایسی درمیان میں نہیں جو اس کو منقطع کرے اور اس پر اضافہ یہ کہ شکل بھی خوبصورت اور ترتیب بھی عمدہ۔
Top