Madarik-ut-Tanzil - Al-Kahf : 63
قَالَ اَرَءَیْتَ اِذْ اَوَیْنَاۤ اِلَى الصَّخْرَةِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ١٘ وَ مَاۤ اَنْسٰىنِیْهُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَهٗ١ۚ وَ اتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ١ۖۗ عَجَبًا
قَالَ : اس نے کہا اَرَءَيْتَ : کیا آپ نے دیکھا اِذْ : جب اَوَيْنَآ : ہم ٹھہرے اِلَى : طرف۔ پاس الصَّخْرَةِ : پتھر فَاِنِّىْ : تو بیشک میں نَسِيْتُ : بھول گیا الْحُوْتَ : مچھلی وَ : اور مَآ اَنْسٰنِيْهُ : نہیں بھلایا مجھے اِلَّا : مگر الشَّيْطٰنُ : شیطان اَنْ اَذْكُرَهٗ : کہ میں اس کا ذکر کروں وَاتَّخَذَ : اور اس نے بنالیا سَبِيْلَهٗ : اپنا راستہ فِي الْبَحْرِ : دریا میں عَجَبًا : عجیب طرح
(اس نے) کہا کہ بھلا آپ نے دیکھا کہ جب ہم نے پتھر کے پاس آرام کیا تھا تو میں مچھلی (وہیں) بھول گیا اور مجھے (آپ سے) اسکا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا اور اس نے عجب طرح سے دریا میں اپنا راستہ لیا
مقام کی علامت سے نشاندہی : 63: قَالَ اَرَئَیْتَ اِذْ اَوَیْنآ اِلَی الصَّخْرَۃِ (کہا دیکھئے تو جب ہم اس پتھر کے پاس ٹھہرے) وہی وعدہ کی جگہ تھی۔ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ (تو میں مچھلی بھول گیا) پھر معذرت کرتے ہوئے اگلا جملہ کہا : وَمَآ اَنْسٰنِیْہُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ (اور مچھلی کو یاد رکھنا ‘ مجھے شیطان ہی نے بھلا دیا) قراءت : انسانیہُکی ہٗ کو ضمہ کے ساتھ حفص نے پڑھا۔ اَنْ اَذْکُرَہٗ (کہ میں اس کو یاد رکھتا) ہٗ ضمیر یہاں انسانیہ کی ہٗ ضمیر کا بدل ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہے وما انسانی ذکرہٗ الا الشّیطان شیطان نے ہی مجھے اس کی یاد بھلائی ہے۔ ) وَاتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِی الْبَحْرِ عَجَبًا (اور اس نے سمندر میں عجیب انداز سے اپنا راستہ بنایا) اور وہ اس طرح ہوا کہ اس کا نشان پڑتا گیا جہاں سے وہ گزرتی گئی (حالانکہ پانی پر نقش قائم نہیں رہتا)
Top