Madarik-ut-Tanzil - Al-Kahf : 64
قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ١ۖۗ فَارْتَدَّا عَلٰۤى اٰثَارِهِمَا قَصَصًاۙ
قَالَ : اس نے کہا ذٰلِكَ : یہ مَا كُنَّا نَبْغِ : جو ہم چاہتے تھے فَارْتَدَّا : پھر وہ دونوں لوٹے عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمَا : اپنے نشانات (قدم) قَصَصًا : دیکھتے ہوئے
(موسی نے) کہا یہی تو وہ (مقام) ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے
ہماری تلاش : 64: قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ (اس نے کہا یہی تو ہم تلاش کرتے تھے) ہم تلاش کرتے ہیں۔ قراءت : مکی نے یاء سے نَبْغِیْپڑھا۔ ابو عمرو اور علی نے اس کی موافقت کی اور مدنی نے وصل میں موافقت کی۔ اور یاءؔ کے بغیر وصل و فصل میں دیگر قراء نے اختیار کیا۔ خط مصحف کا لحاظ کرتے ہوئے ذٰلک کا لفظ راستہ بنانے کی طرف اشارہ ہے تقدیر کلام اس طرح ہے ذٰلک الَّذِی کُنَّا نطلبکیون کہ مچھلی کا غائب ہونا خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کی علامت تھی۔ فارْتَدَّا عَلٰٓی اٰثَارِھِمَا (پس وہ دونوں اپنے نشان ہائے قدم پر واپس لوٹے) وہ اسی راستے پر واپس لوٹے جس پر گئے تھے۔ قَصَصًا (نشان کی پیروی کرتے ہوئے) اس حال میں کہ وہ نشانات پر چل رہے تھے۔ ای یتبعان آثار ھما اتباعًا وہ اپنے قدموں کے نشانات کی پیروی کر رہے تھے اچھی طرح پیروی کرنا۔ قول زجاج (رح) (القصص) کا معنی ہے نشان قدم کی اتباع کرنا۔
Top