Madarik-ut-Tanzil - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے ؟
مختصر واقعہ اصحاب کہف : 9: جب کلی آیات کا تذکرہ تزیین ارض اور اس کے اوپر جو قسم قسم کے اشیاء بےحساب پیدا کیں۔ اور پھر ان تمام کے ازالہ کہ گویا انکا وجود ہی نہ تھا سے کیا جاچکا تو فرمایا۔ اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ (کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ کہف و رقیم والے) یہ آیات اصحاب کہف کے واقعہ اور مدت دراز تک ان کی زندگی کے بقاء سے زیادہ عجیب تر ہیں۔ الکہفؔ پہاڑ میں وسیع غار کو کہتے ہیں۔ الرقیمؔ نمبر 1۔ ان کے کتے کا نام ہے۔ نمبر 2۔ ان کی بستی کا نام ہے نمبر 3۔ اس کتاب اور تختی کا نام ہے جو ان کے حالات کے سلسلہ میں لکھی گئی ہے۔ نمبر 4۔ اس پہاڑ کا نام ہے جس میں وہ غارواقع تھا۔ کَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا (وہ ہماری عجیب نشانیوں میں سے تھے) یعنی وہ عجیب نشانی تھے ہماری نشانیوں میں سے۔ مصدر کو بطور صفت لایا گیا۔ نمبر 2۔ مضاف کو محذوف مانیں یعنی اے ذات عجب۔
Top