Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے مافی الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے
204۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیََا وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ وَہُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ ۔ وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ : (بعض لوگ ایسے ہیں جن کی بات آپ کو پسند آتی ہے دنیا کی زندگی میں اور وہ اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہے اس بات پر جو اس کے دل میں ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے جب وہ لوٹ کرجاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہے تاکہ کھیتی و نسل کو تباہ کرے۔ اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتے اور جب اس کو کہا جاتا ہے اللہ سے ڈر تو غرور اس کو گناہ پر آمادہ کرتا ہے پس اس کے لئے جہنم کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ وَمِنَ النَّاسِ ۔ یہ آیات اخنس بن شریق کے متعلق اتریں۔ جو رسول اللہ ﷺ سے ملتا تو نرم بات کرتا اور دعویٰ کرتا کہ وہ مسلمان ہے اور رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھتا ہے اور اپنی اس حجت میں سچا ہے تو اللہ نے وَمِنَ النَّاسِ نازل فرمائی۔ دعویٔ محبت سے مقصود دُنیا : یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ آپ کو پسند آتی ہے اور تمہارے دل میں بڑی معلوم ہوتی ہے اسی سے الشیٔ العجیب یعنی وہ شیٔ جو نفس میں معظم معلوم ہو۔ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔ فِیْ یہ قول کے متعلق ہے۔ ای یعجبک ما یقولہ فی معنی الدنیا۔ آپ کو پسند آتی ہے وہ بات جو وہ کہتا ہے دنیا کے سلسلہ میں کیونکہ دعویٔ محبت سے اس کا مقصود دنیا ہے نہ کہ آخرت۔ دوسرا قول : آپ کو پسند آتا ہے یعنی اس کا شیریں کلام دنیا کے سلسلہ میں آپ کو پسند آتا ہے آخرت کے متعلق نہیں۔ کیونکہ اس موقعہ پر اس کی زبان میں لکنت پیدا ہوجاتی ہے۔ وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ اور وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دل کی بات پر گواہ بناتا ہے یعنی وہ قسم اٹھا کر کہتا ہے۔ اللّٰہ شاہد علی ما قلبی من محبتک۔ اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ میرے دل میں آپ کی محبت ہے اور میں آپ پر ایمان رکھتا ہوں۔ وَہُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ ۔ حالانکہ وہ شخص جھگڑالو ہے۔ نحوی لطائف : نحو : یہ اضافت فی کے معنی میں ہے کیونکہ افعل کا وزن اسکی طرف مضاف ہوتا ہے جو کہ اس کا بعض حصہ ہوتا ہے جیسے تم کہو۔ زید افضل القوم اور آدمی جھگڑے کا حصہ تو بن نہیں سکتا۔ پس تقدیر عبارت یہ ہوگی۔ الد فی الخصومۃ۔ وہ جھگڑے میں سخت ہے۔ یا الخصام جمع خصم ہے جیسے صَعْبٌ وَ صِعَابٌ اب تقدیر عبارت اس طرح ہے وہ خصومت کے اعتبار سے سخت جھگڑالو ہے۔
Top