Madarik-ut-Tanzil - An-Noor : 12
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ : کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا ظَنَّ : گمان کیا الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتوں بِاَنْفُسِهِمْ : (اپنوں کے) بارہ میں خَيْرًا : نیک وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ھٰذَآ : یہ اِفْكٌ : بہتان مُّبِيْنٌ : صریح
جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا ؟ اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے ؟
مقولہ عمر ؓ : 12: پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں حصہ لینے والوں کو تو بیخ کی۔ فرمایا : لَوْلَآ (کیوں نہ ایسا ہوا۔ ) اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ (جب تم لوگوں نے یہ بات سنی تھی) یعنی افک و بہتان۔ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِھِمْ (تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے متعلق نیک گمان کیوں نہیں کیا) یعنی ان لوگوں کے متعلق جو انہی میں سے تھے پس مسلمان ایک جان کی طرح ہیں اور یہ اس ارشاد الٰہی کی طرح ہے : ولا تلمزوا انفسکم ( الحجرات : 11) خَیْرًا (یعنی پاکدامنی اور بھلائی) اور یہ اسی طرح ہے جو روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے رسول ﷺ سے عرض کیا میں قطعی طور پر اس کو منافقین کا کذب قرار دیتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مکھی سے آپ کی ظاہر جلد کو جب محفوظ رکھا ہوا ہے کیونکہ مکھی بخارات پر بیٹھ کر اس سے لت پت ہوجاتی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس ظاہر گندگی سے آپ کو بچایا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی عورت کی صحبت سے محفوظ نہ رکھیں جو اس قسم کے فحش کام میں لت پت ہو۔ بقول حضرت عثمان ؓ ، اللہ تعالیٰ نے آپکا سایہ زمین پر نہیں ڈالا تاکہ اس پر کوئی انسان قدم رکھے جب آپ کے سایہ پر قدم رکھنا ممکن نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کی عزت کو کوئی پامال کرے۔ حضرت علی ؓ جبرئیل ( علیہ السلام) نے آپ کو اطلاع دی کہ آپ کے نعلین میں گندگی اور جوتا اپنے پائوں سے اتارنے کا حکم دیا۔ اس گندگی کی بناء پر جو اس سے چمٹ گئی تھی پھر وہ اس کو نکالنے کا کیوں حکم نہ دے گا۔ بالفرض والتقدیر اگر اس نے فواحش سے اپنے آپ کو ملوث کیا ہے ؟ ابو ایوب انصاری ؓ نے اپنی بیوی کو کہا کیا تم دیکھ رہی ہو جو کچھ کہا جارہا ہے تو انکی بیوی نے کہا اگر تو صفوان کی جگہ ہوتا تو حرم رسول ﷺ کے متعلق بدگمانی کرسکتا تھا ؟ ابو ایوب نے کہا نہیں۔ اس پر ام ایوب کہنے لگیں اگر میں عائشہ کی جگہ ہوتی تو میں بھی رسول اللہ ﷺ کی خیانت نہ کرتی۔ عائشہ تو مجھ سے بہت بہتر ہے اور صفوان تجھ سے بہتر ہے۔ حسن ادب : صیغہ خطاب سے غائب کی طرف پھیرا گیا۔ اور ضمیر کی بجائے ظاہر لائے اور اس طرح نہیں کہا ظننتم بانفسکم خیرًا وقلتم تاکہ بطریق التفات تو بیخ میں مبالغہ ہو اور لفظ ایمان کی تصریح دلالت کرے کہ ایمان میں اشتراک اس بات کا متقاضی ہے کہ کوئی مومن ومومنہ دوسرے مومن ومومنہ کے متعلق کسی غائب اور طعنہ زن کی بات کا اعتبار نہ کرے۔ اور یہ بہترین تادیب ہے جس کا بہت کم لوگ لحاظ کرنے والے ور کم لوگ اس کی نگہبانی کرنے والے ہیں کاش تم بھی ایسا شخص پالیتے جو بات سنے اور خاموش رہے اور دوسروں میں اس کو پھیلائے۔ وَّ قَالُوْا ھٰذَآ اِفْکٌ مُّبِیْنٌ (اور وہ اس طرح کہے یہ کھلاہوا افتراء ہے) یہ کھلا جھوٹ ہے اور ان دونوں کے مناسب نہیں۔
Top