Madarik-ut-Tanzil - An-Noor : 15
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَ تَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّ تَحْسَبُوْنَهٗ هَیِّنًا١ۖۗ وَّ هُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمٌ
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ : جب تم لاتے تھے اسے بِاَلْسِنَتِكُمْ : اپنی زبانوں پر وَتَقُوْلُوْنَ : اور تم کہتے تھے بِاَفْوَاهِكُمْ : اپنے منہ سے مَّا لَيْسَ : جو نہیں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : کوئی علم وَّتَحْسَبُوْنَهٗ : اور تم اسے گمان کرتے تھے هَيِّنًا : ہلکی بات وَّهُوَ : حالانکہ وہ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک عَظِيْمٌ : بہت بڑی (بات)
جب تم اپنی زبانوں سے اس کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تم کو کچھ علم نہ تھا اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے تھے اور خدا کے نزدیک وہ بڑی بھاری بات تھی
15: اِذ (یہ) مَسَّکمؔ کا ظرف ہے یا افضتم کا ظرف ہے : تَلَقَّوْنَہٗ (نقل درنقل کرنا) ایک دوسرے سے لے کر نقل کرتے تھے کہا جاتا ہے : تلقی القول وتلقنہ وتلقّفہٗ بات کو اچک کر نقل کرنا۔ بِاَلْسِنَتِکُمْ (اپنی زبانوں سے) یعنی تم ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے۔ کیا تمہیں عائشہ کی بات پہنچی ہے ؟ یہاں تک کہ یہ بات پھیل گئی اور منتشر ہوگئی کوئی گھر اور مجلس ایسی نہ رہی جس میں یہ بات نہ اڑی ہو۔ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاھِکُمْ مَّا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ ( اور تم اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہہ رہے تھے جس کا تمہیں علم نہ تھا) اس کو افواہؔ سے مقید فرمایا حالانکہ بات تو ہوتی ہی منہ سے ہے کیونکہ معلوم چیز کا علم دل میں ہوتا ہے پھر زبان اس کی ترجمانی کرتی ہے اور یہ افک محض بات ہی ہے جو تمہارے مونہوں میں گھوم رہی ہے دل میں اس کا علم نہیں کہ جس کی ترجمانی زبانیں کر رہی ہوں۔ جیسا کہ دوسرے ارشاد میں فرمایا : یقولون بافواھھم مالیس فی قلوبھم۔ ) آل عمران : 167 ( وَّ تَحْسَبُوْنَہٗ (اور تم اس کو گمان کر رہے تھے) یعنی عائشہ ؓ کے متعلق بات کے نقل کرنے کو تم گمان کر رہے تھے کہ ھَیِّنًا (آسان ہے) چھوٹی بات ہے : وَّ ھُوَ عِنْدَ اللّٰہ عَظِیْمٌ (حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی بات ہے) بڑی ہے بعض لوگوں نے موت کے وقت گھبراہٹ ظاہر کی تو ان کو اس سلسلہ میں کہا گیا مجھے اس گناہ کا خطرہ ہے کہ جس کی مجھے پرواہ نہ تھی مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا ہے۔
Top