بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Madarik-ut-Tanzil - Al-Ankaboot : 1
الٓمّٓۚ
الٓمّٓ : الف۔ لام۔ میم
ال م
1: الٓمٓ۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا ٰامَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ۔ الم (کیا لوگوں نے خیال کرلیا ہے کہ صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئے۔ ، ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی) ۔ الحسبان۔ باہمی متناقض چیزوں میں سے ایک کا دوسرے کے مقابلہ میں قوت پکڑنا جیسا کہ ظن میں ہوتا ہے۔ الشک۔ دو متناقضین میں دونوں کے مابین ٹھہرنا۔ العلم۔ دو میں سے ایک کے متعلق قطعیت پیدا ہونا۔ ان دونوں کا اطلاق معانی مفردات پر نہیں آتا بلکہ مضامین جمل پر ہوتا ہے۔ اگر تم اس طرح کہو۔ حسبت زیدًا وظننت الفرس۔ تو اس سے کچھ حاصل نہیں جب تک کہ تم اس طرح نہ کہو۔ حسبت زیدًا عالمًا وظننت الفرس جوادًا۔ کیونکہ زید عالم اور الفرس جواد یہ دونوں مضمون جملہ پر دلالت کرتے ہیں۔ جب تو ایسا مضمون جملہ جو تمہارے ہاں ثابت ہو بطور ظن کے خبر دینا چاہو تو جملے کے دو حصوں پر حسبان کو داخل کردو گے تو تمہاری غرض حاصل ہوجائے گی۔ اس موقعہ پر حسبان کا تقاضا کرنے والا مضمون جملہ ان یترکوا ان یقولوا آمنا وہم لا یفتنون ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تقدیر عبارت اس طرح ہے۔ احسبوا ترکہم غیر مفتونین لقولہم آمنا۔ (انہوں نے اپنے آپ کو بےامتحانی سمجھ لیا آمنا کہنے کی وجہ سے) ۔ پس حسب کے دونوں مفعولوں میں سے اول کو ترک کردیا ہے۔ اور آمنا خبر ہے۔ بلا آزمائش ہونے کو ترک کہا گیا کیونکہ یہ ترک وہ ہے جو تصییر کے معنی میں آتا ہے۔ جیسا کہ عنترہ کا قول ہے۔ فترکتہ جزر السباع یَنُشْنَہٗ ۔ ذرا غور تو کرو کہ حسبان کے لانے سے قبل تم اس طرح کہہ سکتے ہو۔ ترکہم غیر مفتونین لقولہم امنا۔ (ان کو بلا آزمائش چھوڑ دیا ان کے صرف آمنا کہنے پر) ۔ اس میں لام سے قبل حاصل و مستقر مقدر ہوگا۔ یہ استفہام تو بیخ کے لئے ہے۔ الفتنۃ سے مراد سخت تکالیف جیسے وطن سے جدائی ‘ دشمنوں سے جہاد ٗ تمام مشکل طاعات ٗ ترک شہوات ٗ فقر ٗ قحط ٗ انفس و اموال میں قسم قسم کے مصائب ٗ کفار کا ان کی ایذاء دہی اور ان کے خلاف سازشوں پر جمنا وغیرہ مراد ہیں۔ روایت ہے : کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ کے متعلق نازل ہوئی جو مشرکین کی ایذائوں پر گھبرا گئے یا عمار بن یاسر ؓ کے متعلق اتری ان کو بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر تکالیف دی جاتی تھیں۔
Top