Madarik-ut-Tanzil - Al-Ankaboot : 4
اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا١ؕ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ
اَمْ حَسِبَ : کیا گمان الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَعْمَلُوْنَ : کرتے ہیں السَّيِّاٰتِ : برے کام اَنْ : کہ يَّسْبِقُوْنَا : وہ ہم سے باہر بچ نکلیں گے سَآءَ : برا ہے مَا يَحْكُمُوْنَ : جو وہ فیصلہ کر رہے ہیں
کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ؟ جو یہ خیال کرتے ہیں برا ہے
4: اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ (کیا بدکاریاں کرنے والوں نے گمان کرلیا) ۔ السیئات سے شرک و گناہ مراد ہیں۔ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا (کہ وہ ہم سے سبقت کر جائیں گے) ۔ وہ ہم سے نکل جائیں گے۔ یعنی سزا ان کو بہر صورت ملے گی۔ نحو : ان کا صلہ مسند اور مسند الیہ کو شامل ہونے کی وجہ سے دو مفعولوں کے قائم مقام ہوگیا۔ جیسا کہ اس ارشاد میں ہے : ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ] البقرہ۔ 214[ نمبر 2۔ اور یہ بھی درست ہے کہ حَسِبَ میں قدّر کا معنی متضمن ہو۔ اور ام منقطعہ ہو اور اس میں اضراب کا معنی پایا جائے۔ اس طرح کہ یہ گمان تو پہلے گمان سے بھی زیادہ باطل تر ہے۔ کیونکہ وہ تو صرف یہ فرض کیا گیا کہ ایمان لانے پر اس کا امتحان نہ لیا جائے گا اور یہ گمان کر بیٹھا ہے کہ اس کی سیئات پر اس کو سزا نہ ملے گی۔ بعض کا قول : یہ ہے کہ اول تو ایمان والوں کے متعلق ہے کہ مؤمنوں نے عدم آزمائش کا گمان کیا۔ اور دوسرا گمان کافروں سے متعلق ہے۔ سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ (وہ بہت برا فیصلہ کرتے ہیں) ۔ ما موضع رفع میں ہے۔ معنی یہ ہے ساء الحکم حکمہم۔ ان کا فیصلہ بدترین فیصلہ ہے۔ ماموضع نصب میں ہے۔ معنی یہ ہے ساء حکما یحکمون۔ بہت برا ہے فیصلہ کے لحاظ سے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔ مخصوص بالذم محذوف ہے ای بئس حکما یحکمونہ حکمہم ہذا۔ ان کا یہ حکم جو وہ کر رہے ہیں بہت برا حکم ہے۔
Top