Madarik-ut-Tanzil - Yaseen : 78
وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗ١ؕ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ هِیَ رَمِیْمٌ
وَضَرَبَ : اور اس نے بیان کی لَنَا : ہمارے لیے مَثَلًا : ایک مثال وَّنَسِيَ : اور بھول گیا خَلْقَهٗ ۭ : اپنی پیدائش قَالَ : کہنے لگا مَنْ يُّحْيِ : کون پیدا کرے گا الْعِظَامَ : ہڈیاں وَهِىَ : اور جبکہ وہ رَمِيْمٌ : گل گئیں
اور ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا کہنے لگا کہ (جب) ہڈیا بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندہ کرے گا ؟
78: وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا (اور یہ ہماری شان میں ایک عجیب مضمون بیان کرتا ہے) ہڈیوں کا ریزہ ریزہ ہونا۔ وَّ نَسِیَ خَلْقَہٗ (اور اپنی پیدائش کو بھول گیا) جو کہ منی سے ہوتی ہے۔ اور وہ ہڈیوں کے زندہ کرنے سے زیادہ غریب ہے۔ نحو : خَلْقَہٗ مصدر کو مفعول کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ ای خلقناہ ایاہ (ہم نے اس کو پیدا کیا ہے۔ ) قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ (اور کہتا ہے کہ ہڈیوں کو جبکہ وہ بوسیدہ ہوگئی کون زندہ کر دے گا ؟ ) رمیمؔ پرانی ہڈیوں کو کہتے ہیں یہ نام ہے وصف نہیں جیسا کہ الرِّمۃ اور الرفات وغیرہ ہیں۔ اسی لئے یہاں مؤنث نہیں لائے حالانکہ یہ مؤنث کی خبر بن رہی ہے۔ ایک استدلال ‘ ایک قول : جو ہڈیوں میں زندگی کو ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں مردار کی ہڈیاں اس لیے نجس ہیں کیونکہ موت ان میں موثر تھی زندگی کے ان میں اترنے سے پہلے۔ اس قول پر استدلال اسی آیت سے کیا گیا ہے۔ قولِ احناف رحمہم اللہ : ہمارے ہاں ہڈیاں طاہر ہیں۔ اسی طرح بال اور پٹھے بھی پاک ہیں کیونکہ حیات ان میں موثر نہیں۔ پس موت بھی موثر نہیں ( مگر یہ قول درست نہیں اس طرح کہنا زیادہ مناسب ہے کہ سبب نجاست دم مسفوح ہے اور ان میں دم مسفوح نہیں اسلئے نجس نہیں۔ کذا قال العلماء) آیت میں احیائے عظام سے مراد اسی حالت میں لوٹانا ہے جیسا کہ زندہ حساس بدن میں تروتازہ تھیں۔
Top