Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے
آیت 31 : اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآپرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ (اگر تم ان بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے روکا گیا ہے۔ تو ہم تمہاری چھوٹی غلطیاں مٹا دیں گے) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے۔ الکبائر۔ بڑے گناہ وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے سورة نساء میں ابتداء سے ان تجتنبوا کبائر ما تنہون عنہ تک بیان کیا۔ کبائر تین ہیں : اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں۔ کبائر تین ہیں۔ نمبر 1۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا۔ نمبر 2۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہونا۔ نمبر 3۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے بےخوف ہوجانا۔ ایک تفسیر اس کی کفر کی اقسام ہیں۔ اس کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قراءت کبیر ماتنہون عنہ ہے اور وہ بڑی بات جس سے تمہیں روکا گیا اور وہ کفر ہے۔ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْ خَلًا کَرِیْمًا (اور ہم تمہیں داخل کریں گے عمدہ داخل ہونے کی جگہ) ۔ سورة نساء کی آٹھ آیات ‘ ساری دنیا سے بہتر : قراءت : مدنی قراء نے مَدْخَلاً پڑھا۔ دونوں مکان کے معنی میں ہیں اور مصدر ہیں۔ کریماً ۔ کا معنی عمدہ ٗ اچھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سورة نساء کی آٹھ آیات اس امت کے لئے اس ساری دنیا سے بہتر ہیں جس پر سورج طلوع و غروب ہوتا ہے۔ نمبر 1۔ یریداللّٰہ لیبین لکم۔ نمبر 2۔ واللّٰہ یریدان یتوب علیکم۔ نمبر 3۔ یرید اللّٰہ ان یخفف عنکم۔ نمبر 4۔ ان تجتنبوا کبائر ماتنہون عنہ نکفر عنکم۔ نمبر 5۔ ان اللّٰہ لا یغفر ان یشرک بہٖ ۔ نمبر 6۔ ان اللّٰہ لا یظلم مثقال ذرۃٍ ۔ نمبر 7۔ ما یعمل سوءا او یظلم نفسہ۔ نمبر 8۔ من یفعل اللّٰہ بعذابکم۔ معتزلہ کا استدلال : اس آیت سے معتزلہ نے استدلال کیا کہ صغائر کی بخشش لازمی ہے۔ جبکہ کبائر سے پرہیز کیا جائے اور کبائر کی بخشش نہیں۔ شرک کی معافی اللہ کی مشیت میں ہے : مسئلہ : یہ استدلال باطل ہے۔ کیونکہ تمام کبائر وصغائر مشیت الٰہی میں برابر ہیں۔ ان دونوں پر چاہے تو عذاب دے سکتا ہے۔ اور دونوں کو معاف کرسکتا ہے۔ جیسا اس ارشاد میں ان اللّٰہ لایغفر ان یشرک بہٖ ویغفر مادون ذلک لمن یشائ۔ النسائ۔ 48۔ کہ اللہ تعالیٰ شرک کو نہ بخشیں گے۔ اور ان کے سواجو چاہیں گے جس کو چاہیں گے معاف فرما دیں گے۔ شرک کے علاوہ گناہ پر مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اور پھر دونوں کو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ملایا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ان الحسنات یذہبن السیئات۔ کہ نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں۔ یہ آیت بتلاتی ہے کہ صغائرو کبائر تمام کا حسنات سے معاف ہونا ممکن ہے۔ کیونکہ السیئات دونوں پر بولا جاتا ہے۔
Top