Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 34
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ١ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ١ؕ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا
اَلرِّجَالُ : مرد قَوّٰمُوْنَ : حاکم۔ نگران عَلَي : پر النِّسَآءِ : عورتیں بِمَا : اس لیے کہ فَضَّلَ : فضیلت دی اللّٰهُ : اللہ بَعْضَھُمْ : ان میں سے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض وَّبِمَآ : اور اس لیے کہ اَنْفَقُوْا : انہوں نے خرچ کیے مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : اپنے مال فَالصّٰلِحٰتُ : پس نیکو کار عورتیں قٰنِتٰتٌ : تابع فرمان حٰفِظٰتٌ : نگہبانی کرنے والیاں لِّلْغَيْبِ : پیٹھ پیچھے بِمَا : اس سے جو حَفِظَ : حفاطت کی اللّٰهُ : اللہ وَالّٰتِيْ : اور وہ جو تَخَافُوْنَ : تم ڈرتے ہو نُشُوْزَھُنَّ : ان کی بدخوئی فَعِظُوْھُنَّ : پس امن کو سمجھاؤ وَاهْجُرُوْھُنَّ : اور ان کو تنہا چھوڑ دو فِي الْمَضَاجِعِ : خواب گاہوں میں وَاضْرِبُوْھُنَّ : اور ان کو مارو فَاِنْ : پھر اگر اَطَعْنَكُمْ : وہ تمہارا کہا مانیں فَلَا تَبْغُوْا : تو نہ تلاش کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر سَبِيْلًا : کوئی راہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيًّا : سب سے اعلی كَبِيْرًا : سب سے بڑا
مرد عورتوں پر حاکم ومسلط ہیں اس لیے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال و آبرو کی) خبر داری کرتی ہے اور جن عوتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی اور (بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو۔ اگر اس پھر بھی باز نہ آئیں تو پھر زد کو ب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈوں بیشک خدا سب سے اعلی (اور) جلیل القدرر ہے
آیت 34: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ (مرد عورتوں کے ذمہ دار ہیں) وہ ان پر نگرانی امرو نہی کے سلسلہ میں کریں گے۔ جیسے والی رعایا پر کرتے ہیں۔ اسی لئے ان کو قوام فرمایا گیا۔ اسبابِ فضیلت : بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ (اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض مردوں کو بعض (عورتوں) پر فضیلت دی) بَعْضَهُمْ کی ضمیر مردوں اور عورتوں کی طرف لوٹتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ مرد ان عورتوں پر غلبہ رکھتے ہیں عقل ٗ عزم ٗ حزم ٗ تیر اندازی ٗ قوت ‘ غزوہ و حرب ٗ کمال صوم وصلوٰۃ اور نبوت و خلافت و امامت و اذان اور خطبہ و جماعت و جمعہ کی وجہ سے بلکہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تکبیرات تشریق کی وجہ سے بھی فضیلت والے ہیں۔ بلکہ شہادت فی الحدود والقصاص ٗ دوگنا حصہ وراثت اور میراث میں عصبہ بننے کی وجہ سے افضل ہیں۔ اسی طرح نکاح و طلاق کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں رکھی ہے اور اولاد کی نسبت نسبی بھی انہی کی طرف ہوتی ہے۔ اور مرد ہی داڑھیوں اور پگڑیوں سے مزین کیے گئے ہیں۔ وَبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ (اور اس وجہ سے بھی کہ مرد اپنا مال ان عورتوں پر صرف کرتے ہیں) یعنی عورتوں کے نفقہ ونان کی ذمہ داری ان مردوں پر ہے۔ اس آیت میں اس بات کی دلیل پائی جاتی ہے کہ عورتوں کا نفقہ مردوں پر لازم ہے۔ پھر ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ عورتوں کی تقسیم : قسم اوّل : فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ (پس نیک عورتیں فرمانبرداری کرنے والیاں ہیں) قانتات کا معنی اطاعت گزار اور خاوندوں کے حقوق کو پورا کرنے والیاں۔ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ (اور خاوندوں کی غیر موجودگی میں حفاظت کرنے والی ہیں) للغیب کا مطلب جو غیر موجودگی میں ان پر لازم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے خاوند موجود نہ ہوں تو اپنی شرمگاہوں ٗ اموال ٗ بیوت کی پوری حفاظت کرنے والی ہوں۔ دوسرا قول یہ بھی ہے کہ للغیب کا مطلب ان کے پوشیدہ راز نہ ظاہر کرنے والی ہیں۔ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ (اس حفاظت کے سبب جو اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی) کہ خاوندوں کو ان کے متعلق نصیحت فرمائی : وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (لنساء : 19) کہ عورتوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آئو۔ یا ماکو مصدر یہ مانیں تو مطلب یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حفاظت غیب کا حکم دیا اور اس کی توفیق بخشی۔ مَا موصولہ ہو، یعنی عورتوں کو اس طرح بنادیا کہ مردوں کو ان کے حقوق کا نگران بنایا۔ اور اس کے بدلے ان پر عصمت اور مردوں کے اموال و اولاد کی حفاظت ان کے ذمہ کی۔ قسم ثانی : وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ (اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی کا تمہیں خطرہ ہو) اور خاوند کی اطاعت سے نکل جانے کا۔ النشزبلند جگہ کو کہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے۔ نشز یہ ہے کہ خاوند کے حقوق کی ادائیگی میں تخفیف کا مطالبہ کرے اور خاوند کی بات نہ مانے۔ فَعِظُوْہُنَّ (ان کو (زبانی) نصیحت کرو) یعنی اللہ تعالیٰ کی سزا سے ان کو ڈرائو۔ العظہ، وعظ اس نرم کلام کو کہتے ہیں۔ جو سخت دلوں کو نرما دے اور نفرت والی طبائع کو جھکا دے۔ کنایۃً ترک جماع : وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ (تم ان کی خوابگاہوں میں علیحدگی اختیار کرو) یعنی اپنے لحاف میں مت داخل کرو۔ یہ ترک جماع سے کنایہ ہے۔ یا بستر میں منہ اس سے پھیر لے۔ کیونکہ فی المضاجع فرمایا عن المضاجع نہیں فرمایا۔ وَاضْرِبُوْہُنَّ (اور ان کو مارو) جس کا نشان نہ پڑے اللہ تعالیٰ نے اولاً نصیحت کا حکم فرمایا پھر خوابگاہوں میں ان سے علیحدگی اختیار کرلینے اور آخر میں ضرب کا حکم فرمایا۔ گویا پہلی دونوں صورتیں نہ بن پڑیں تو تب تیسری اختیار کی جائے۔ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَـلَا تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلًا (اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو تم خواہ مخواہ ان پر اعتراض کا راستہ مت تلاش کرو) یعنی ایذاء سے تعرض مت کرو۔ اللہ کی عظمت کا خیال کرو : نحو : سبیلا یہ تبغوا کا مفعول ہے۔ یہ بغیت الامر بمعنی طلبت الامر ہے۔ مت ڈھونڈو ان پر بات اعتراض والی۔ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا (بیشک اللہ تعالیٰ بڑی عظمت وکبریائی والے ہیں) اگر تمہارے غلبے والے ہاتھ ان پر ہیں تو یقین کرلو کہ اس کی قدرت اس سے بہت بڑھ کر ہے جتنی تم کو ان پر حاصل ہے۔ اس لئے ان پر ظلم سے گریز کرو۔ دوسری تفسیر یہ ہے اللہ تعالیٰ تو بڑی عظمت وکبریائی والے ہیں۔ پھر تم اس کی علو شان کے باوجود اس کی نافرمانی کرتے ہو۔ بڑی بادشاہت کے باوجود نافرمانی کر رہے ہو۔ پھر تم توبہ کرتے ہو تو وہ توبہ قبول فرماتا ہے۔ پس تمہارے حق میں جو زیادتی کر بیٹھا تم اس کو معاف کرنے کے زیادہ حقدار ہو۔ پس معاف کردو۔
Top