Madarik-ut-Tanzil - At-Talaaq : 3
وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ١ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا
وَّيَرْزُقْهُ : اور رزق دے گا اس کو مِنْ حَيْثُ لَا : جہاں سے، نہ يَحْتَسِبُ : وہ گمان کرتا ہوگا وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ : اور جو بھروسہ کرے گا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَهُوَ حَسْبُهٗ : تو وہ کافی ہے اس کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ بَالِغُ اَمْرِهٖ : پہنچنے والا ہے اپنے حکم کو قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ : تحقیق بنادیا اللہ نے لِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کے لیے قَدْرًا : ایک اندازہ
اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیگا جہاں سے (وہم و) گمان بھی نہ ہو اور جو خدا پر بھروسہ رکھے گا خدا اس کو کفایت کرتے گا اللہ تعالیٰ اپنے کام کو جو کرنا چاہتا ہے کردیتا ہے خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے
3 : وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ( اور اس کو ایسی جگہ سے رزق بھی پہنچا دیتا ہے۔ جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں) ایسے طریق سے کہ جس کا اس دل میں گمان بھی نہیں ہوتا) یہ بھی درست ہے کہ اس آیت کو ذلکم یوعظ بہٖ کے ساتھ بطور استطراد لایاجائے۔ یعنی جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے لئے نکلنے کا راستہ مقرر کردیں گے اور اس کو دنیاوآخرت کے غموم سے چھٹکارا ملے گا نبی اکرم ﷺ نے اس کی تلاوت فرمائی اور فرمایا دنیا کے شبھادت اور غمرات موت اور قیامت کے دن کی سختیوں سے چھٹکارا ملے گا۔ (رواہ الثعلبی والواحدی۔ حاشیہ کشاف) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے ایک ایسی آیت معلوم ہے۔ کہ اگر لوگ اسی کو اپنا لیں تو ان کے لئے کفایت کر جائے پھر یہ آیت ومن یتق اللّٰہ الایۃ پڑھی پھر اس کو بار بار پڑھ کر دھراتے رہے۔] رواہ ابن ماجہ : 4220] عوف بن مالک ؓ کا واقعہ : روایت میں ہے کہ عوف بن مالک کے بیٹے کو مشرکین نے قید کرلیا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور شکایت کی کہ میرے بیٹے کو قید کرلیا گیا۔ اور فاقے کی بھی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا آل محمد نے تو ایک مد پر شام کی ہے۔ پس تو تقویٰ اختیار کر اور صبر کے دامن کو تھام اور لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم کو کثرت سے پڑھ عوف اپنے گھر لوٹے اور اپنی بیوی کو کہا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور تمہیں حکم دیا کہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ کو کثرت سے پڑھو۔ اس نے کہا بہت خوب وہ کلمہ ہے جس کے پڑھنے کا حکم ملا ہے۔ انہوں نے اس کو پڑھنا شروع کیا اچانک ان کے دروازہ کو کسی نے کھٹکھٹایا۔ وہ ان کا بیٹا ہی تھا۔ اور اس کے ساتھ ایک سو اونٹ تھے۔ دشمن ان سے غافل ہوئے تو وہ ان کو اپنے ساتھ کھینچ کرلے آیا۔ پس یہ آیت اتری۔ ] رواہ الثعلبی والبیہقی نحوہ حاشیہ کشاف [ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (اور جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے) اپنا معاملہ خواہ طمع ہو یا تدبیر وہ اس کے سپرد کرتا ہے۔ فَھُوَ حَسْبُہٗ (پس وہ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے) دونوں جہانوں میں۔ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ (اللہ تعالیٰ اپنے کام کو پورا کر کے رہتا ہے) قراءت : حفص نے اسی طرح پڑھا ہے جس کا معنی اپنے حکم کو نافذ کرنے والا ہے۔ دیگر قراء نے بالَغَ امرَہُ وہ پہنچاتا ہے اپنے معاملے کو جو وہ ارادہ کرتا ہے۔ کوئی مراد اس سے رہ نہیں سکتی اور کوئی مطلوب اس سے چھوٹ نہیں سکتا۔ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْ ئٍ قَدْرًا (اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے) ہر چیز کا اندازہ اور وقت مقرر ہے۔ یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کیوں ضروری ہے اور معاملات کو کیوں اس کے سپرد کرنا چاہیے کیونکہ جب انسان کو یہ معلوم ہوگیا کہ ہر چیز خواہ وہ رزق ہو یا روشنی اس کا ایک وقت واندازہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ تو رب مخلوق کی تقدیر کے تسلیم کرنے اور اس کی ذات پر بھروسہ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔
Top