Mafhoom-ul-Quran - Al-Kahf : 17
وَ تَرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ اِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِّنْهُ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ١ؕ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ١ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا۠   ۧ
وَتَرَى : اور تم دیکھو گے الشَّمْسَ : سورج (دھوپ) اِذَا : جب طَلَعَتْ : وہ نکلتی ہے تَّزٰوَرُ : بچ کر جاتی ہے عَنْ : سے كَهْفِهِمْ : ان کا غار ذَاتَ الْيَمِيْنِ : دائیں طرف وَاِذَا : اور جب غَرَبَتْ : وہ ڈھل جاتی ہے تَّقْرِضُهُمْ : ان سے کترا جاتی ہے ذَاتَ الشِّمَالِ : بائیں طرف وَهُمْ : اور وہ فِيْ : میں فَجْوَةٍ : کھلی جگہ مِّنْهُ : اس (غار) کی ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں مَنْ : جو۔ جسے يَّهْدِ : ہدایت دے اللّٰهُ : اللہ فَهُوَ الْمُهْتَدِ : پس وہ ہدایت یافتہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلْ : وہ گمراہ کرے فَلَنْ تَجِدَ : پس تو ہرگز نہ پائے گا لَهٗ : اس کے لیے وَلِيًّا : کوئی رفیق مُّرْشِدًا : سیدھی راہ دکھانے والا
اور جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ دھوپ ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جائے اور جب غروب ہو تو ان سے بائیں طرف کترا جائے اور وہ اس غار کی کھلی جگہ میں ہیں۔ یہ سب اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں جس کو اللہ ہدایت دے وہ ہدایت پا جاتا ہے اور جس کو گمراہ کرے تو تم اس کے لیے کوئی مددگار راہ بتانے والا نہ پائو گے۔
غار کا بہترین بندوبست تشریح : ان آیات میں اللہ کی طرف سے ان کی حفاظت کا خاص بندوبست بتایا گیا ہے۔ پہلا تو یہ کہ وہ گہری نیند سوئے پڑے ہیں اور جب بندہ سو جاتا ہے تو سکون میں ہوجاتا ہے نہ کسی قسم کی فکر نہ پریشانی اور نہ ڈر۔ دوسرا یہ کہ غار کا منہ کیونکہ شمال کی طرف ہے اس لیے دھوپ کسی بھی موسم میں اندر نہیں پہنچتی اور وہ لوگ اس کی سختی سے بچے رہتے ہیں جب کہ ہوا اور روشنی برابر ان کو پہنچتی رہتی ہے۔ یہ بھی اللہ کی قدرت کی بہترین نشانیاں ہیں۔ نیک فطرت لوگوں کے ایمان کو اللہ اور بھی بڑھا دیتا ہے اور بد فطرت کو تو کوئی بھی ہدایت نہیں دیتا یہاں تک کہ اللہ بھی ان کے لیے نیکی اور راستی کے دروازے نہیں کھولتا۔ کیونکہ یہ سب فطرت کے خلاف کام ہے اس لیے کوئی بھی اندر جا کر تحقیق کرنے کی ہمت ہرگز نہ کرتا تھا بلکہ باہر سے جھانک کر ہی دہشت میں آجاتے کہ یہ سب کیا ہے۔ غار میں لوگ سو رہے ہیں اور کتا دہلیز پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا ہے۔ اور یوں یہ راز راز ہی بنا رہا۔ اس سورت میں جہاں بہت سے اخلاقی پہلوئوں پر زور دیا گیا ہے وہاں کچھ تعمیراتی اور جسمانی نکات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً ان کے غار کا رخ اس قدر موزوں تھا، یعنی غار کا منہ شمال کی طرف تھا، جب سورج مشرق سے نکلتا تو دھوپ بجائے غار کے اندر جانے کے غار کے داہنی طرف سے ہو کر گزر جاتی اور جب سورج غروب ہوتے ہوئے مغرب کی طرف ہوتا تو دھوپ پھر بجائے اندر داخل ہونے کے غار کے منہ سے بائیں طرف ہو کر گزر جاتی اور یوں غار کے اندر دھوپ کی روشنی اس طرح داخل ہوتی ہے کہ غار کا اندر کا ٹمپریچر بڑا نارمل رہتا گرم زیادہ نہیں ہوتا اور اندر کا ماحول دھوپ کی افادیت بھی حاصل کرلیتا اور ہوائیں بھی کیونکہ عموماً شمالاً جنوباً چلتی ہیں اس لیے تازہ ہوا بھی مستقل طور پر اندر پھرتی رہتی اور یوں اندر کا ماحول بڑا ہی مناسب رہتا۔ اگر یہی رخ یعنی غار کا منہ شرقاً غرباً ہوتا تو اندر کا ٹمپریچر نسبتاً گرم ہوتا جو کہ اندر رہنے والوں کے لیے نامناسب ہوتا۔ آج کل جب بھی گھر کا نقشہ بنایا جاتا ہے تو اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ گھر کا میں دروازہ شمال کی طرف ہو۔ اور جو گھر اس بات کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں وہ ہر طرح سے آئیڈیل، یعنی بہت مناسب گھر ہوتے ہیں۔ اصحاب کہف کی غار کا رخ اللہ رب العزت نے ایسا ہی آئیڈیل رکھا کہ دھوپ اندر جا کر ان کو تنگ نہ کرے اور وہ دھوپ کی روشنی مناسب حرارت اور ہوا سے پوری پر طرح مستفیدہو سکیں اور اندر کا ماحول نہ تو گرم ہو اور نہ ہی سیلن ہو یعنی نمی کے اثرات پیدا ہوں کہ جس کی وجہ سے ان کو تکلیف ہو۔ کس قدر بڑی اور حیرت انگیز نشانیاں ہیں ؟ یہ سب رب رحمن ورحیم کی قدرتیں اور حکمتیں ہیں۔ اس وقت کا انسان ان باریکیوں کو کہاں سمجھتا تھا۔ ابھی بھی اصحاب کہف کا یوں اتنا طویل عرصہ تک گہری نیند میں پڑے رہنا، کس قدر عجیب بات ہے، کیونکہ نیند کا انتظام جو اللہ نے ایک نارمل انسان کے لیے کر رکھا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ نیند بےہوشی کی وہ حالت ہے جس سے انسان کی جسمانی صحت اچھی ہوتی ہے اور اس کو جگایا جاسکتا ہے، کیونکہ نیند کے دو مرحلے ہوتے ہیں۔ ہلکی نیند اور گہری نیند۔ ہلکی نیند سونے کے پہلے گھنٹے میں ہوتی ہے اور جسم کو آرام پہنچاتی ہے پھر یہی نیند گہری ہوجاتی ہے اور یہ ایک جوان آدمی کی نیند کا 25% حصہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ نیند ہر 90 منٹ کے بعد ساڑھے پانچ منٹ کے لیے ہلکی نیند میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس گہری نیند میں تمام جسم کے مسلز (Museles) ریسٹ (آرام) کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ دل اور پھیپھڑے بھی کچھ بےترتیب ہوجاتے ہیں۔ بلڈ پریشر، سانس اور جسم میں ہونے والی توڑ پھوڑ 30% سے 10% تک کم ہوجاتی ہے۔ یہ نیند موت کے مشابہ ہوتی ہے مگر موت نہیں ہوتی۔ بیشک اس حالت میں انسان کو اردگرد کی کوئی ہوش نہیں ہوتی مگر اسکو جگایا جاسکتا ہے وہ نیند کے غلبے سے باہر لایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ اصحاب کہف کو ایک طویل مدت کے بعد اللہ نے اپنی قدرت سے اٹھا کھڑا کیا۔ یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک تھی۔ کیونکہ عام حالات میں انسانی جسم کی ساخت ایسی نہیں کہ اس قدر طویل عرصہ بغیر کھائے پیئے اس قدر گہری نیند سویا رہے اور پھر اٹھ بھی کھڑا ہو۔ یہ تو صرف اس لیے ہوا کہ اللہ نے اپنی نشانیاں لوگوں کو دکھانی تھیں۔ کہ اگر اس قدر لمبے عرصے کے بعد کوئی اللہ کے حکم سے زندہ سلامت آکر کھڑا ہوسکتا ہے تو پھر بھلا آخرت میں اللہ کے سامنے دوبارہ لوگوں کا زندہ ہوجانا کیسے ناممکن ہے۔ اس وقت شہر میں یہی شور ہو رہا تھا کہ دوبارہ زندہ ہونا ممکن نہیں تو اللہ نے اصحاب کہف کے ذریعہ ان کو یہ یقین دلا دیا کہ اللہ کے لیے یہ کام ہرگز کوئی مشکل کام نہیں۔ وہ جو چاہے کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ وہ ضرور لوگوں کو دوبارہ زندہ کرے گا اور ضرور حساب کتاب لیا جائے گا۔ اور سزا و جزا ضرور دی جائے گی۔
Top