Mafhoom-ul-Quran - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (حال) رَّجُلَيْنِ : دو آدمی جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِاَحَدِهِمَا : ان میں ایک کے لیے جَنَّتَيْنِ : دو باغ مِنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّحَفَفْنٰهُمَا : اور ہم نے انہیں گھیر لیا بِنَخْلٍ : کھجوروں کے درخت وَّجَعَلْنَا : اور بنادی (رکھی) بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان زَرْعًا : کھیتی
اور ان سے دو آدمیوں کا حال بیان کریں جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے تھے۔ اور ان کے گرد کھجوروں کے درخت لگا دیے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی۔
سبق آموز کہانی اور نیکیوں کا بدلہ تشریح : ان آیات میں بھی اللہ کی حاکمیت، قدرت کاملہ اور وحدانیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ ہر انسان کو روزی رزق دیتا ہے تو انسان کا فرض ہے اس کی نعمتوں کو حاصل کر کے فخر و غرور نہ کرے اور اس قدر بدمست نہ ہوجائے کہ اللہ کے وجود اور قیامت کا انکار کردے اور نعمتوں کا شکر ہی ادا نہ کرے اور دوسروں کو حقارت سے دیکھنے لگے۔ یہ سب انسانیت کے خلاف اور برے رویے ہیں ہمارا مذہب اسلام ان تمام اخلاقی برائیوں سے منع کرتا ہے، یعنی کسی کو حقیر سمجھنا اور شکر الٰہی ادا نہ کرنا۔ پھر حکم دیا گیا ہے کہ جب بھی کسی نعمت یا خوبصورت چیز کو دیکھو یا کامیابی حاصل کرو تو اس کو دیکھ کر ماشَائَ اللٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ ضرو رکہو۔ اس طرح انسان اللہ کی ناراضگی شیطان کی شرارت اور نظر بد سے بچ جاتا ہے اور یوں انسان اللہ کی حفاظت میں آجاتا ہے۔ کیونکہ نقصان دینا اور نقصان سے بچانا یہ کسی بھی بندہ بشر کے اختیار میں ہرگز نہیں کیونکہ اس سارے انتظام کا مالک صرف اللہ ہی ہے۔ یہ دنیا اور اس کی ہر چیز اور خود انسان بھی سب کچھ فنا ہوجانے والا ہے۔ باقی رہنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف انسان کے اس دنیا میں کیے گئے اعمال ہیں باقی سب کوڑ کباڑ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان شدہ اس واقعہ کو غور سے پڑھنا اور اس سے حکمت کی باتیں سمجھ لینی چاہیں۔ آیت 32 میں اللہ تعالیٰ نے ذراعت کا ایک صول بتایا ہے کہ ایک وقت میں تین فصلیں بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ جیسا کہا گیا ہے کہ باغ کے گردا گرد کھجور کے درخت ساتھ میں انگور کی بیلیں جو کہ اوپرچڑھا دی جاتی ہیں اور درمیان میں جو جگہ بچی تو اس میں کسی بھی قسم کی فصل یا سبزی کاشت کی جاسکتی ہے۔ بہرحال انسان کا کام ہے کاشت کرنا۔ پھول پھل دینا اور اس کے لیے تمام ذرائع کا بندوبست کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے اسی کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ محمد موسیٰ روحانی (رح) تعالیٰ صاحب لکھتے ہیں : پس شکر کا تقاضا یہ ہے کہ دل ہر قسم کے حسد، بغض، کینہ، حب (محبت) دنیا جاہ وغیرہ خباثتوں اور برے اعتقادات و خیالات سے خالی اور پاک ہو اور جملہ انواع صفات حمیدہ (بہترین کردار) اوصاف سعیدہ (بہترین اعمال) یعنی حب اللہ، حب رسول ﷺ ، ایمان کامل، خشوع، تواضع، خوف خدا، انابت الی اللہ اور صحیح اعتقادات سے متصف ہو۔ از (گلستان قناعت صفحہ 225 ) غرض ذکر، شکر، قناعت اور عبادت دنیا میں جنت، اور آخرت میں بھی جنت، سب اسی کے اندر پوشیدہ ہے۔ جبکہ غفلت، ناشکری، لالچ اور اللہ سے دوری دنیا میں بھی جہنم اور آخرت میں بھی جہنم کا ہی راستہ آسان کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (اے آخرت کے مسافرو ! ) ” زاد راہ ساتھ لے لو، اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ “ (البقرہ : 197 )
Top