Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
اللہ نے انکے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور انکی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب تیار ہے
کفر کا نتیجہ تشریح : اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو محض ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے نیکی اختیار نہیں کرتے، اس طرح نیکی اور پاکیزگی کی وجہ سے جو وجدانی اور روحانی قوت انسان کے دل پر اثرانداز ہوتی ہے وہ اس سے محروم رہتے ہیں اور یوں اس خوبصورت اور کارآمد آلہ کو بےکار چھوڑنے سے اس پر زنگ چڑھ جاتا ہے، کیونکہ دل محض ایک گوشت کا لوتھڑا ہی نہیں، بلکہ بہت کار آمد اور ضروری تحفہ جسم کے لئے عطا کیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں انسانی شعور اور ادراک کا مرکز ہے۔ انسان سچائی اور حقائق تک کبھی نہیں پہنچ سکتا اگر اللہ دل پر مہر لگا دے، دل کے ساتھ دو بنیادی اعضاء آنکھ اور کان کے تعلق کو زور دے کر بیان کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب خود اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے تو ان کا کیا قصور اصل میں یہ تقدیر میں نہیں لکھا گیا بلکہ اللہ نے تو ہر شخص کو نیکی پر پیدا کیا ہے۔ یعنی نیک جذبات احساسات دے کر بھیجا ہے یہ تو اللہ نے اپنے علم کی وجہ سے کہا ہے کہ یہ ایسے پکے کافر لوگ ہیں سخت دل اور ضدی کہ یہ کبھی بھی ایمان لانے والے نہیں یہاں یہ بات آنحضرت ﷺ کی تسلی اور ہمت افزائی کے لئے بھی کہی گئی کہ آپ ﷺ ہرگز دلبرداشتہ نہ ہوں۔ یہ لوگ ہیں ہی شیطان فطرت، ان کے دل پتھر ہوچکے ہیں، چونکہ دل پتھر ہوچکے ہیں اس لیے نہ تو آنکھیں نیکی کو دیکھ سکتی ہیں نہ کان نیکی کا اثر قبول کرسکتے ہیں۔ انسان کو جو چیز انسان بناتی ہے وہ دل کا وجدان ہوتا ہے۔ دل ایک عام قسم کا پمپ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بہترین صناعی کا نمونہ ہے۔ دل کے ذریعہ ہم علم پیدا کرسکتے ہیں وجدان کا مشاہدہ کرسکتے ہیں، ہمارے رسول ﷺ کا امی ہونے کا راز بھی یہی ہے اس لئے کہ آپ ﷺ نے دنیوی احساس سے ماوراء عظیم سچائیوں کو اپنے پاک دل کے شعور کے ذریعہ ہی بیان کیا۔ سورة بقرہ میں ایمان کو ایمان بالغیب اس حقیقت کی بناء پر کہا گیا ہے کہ قرآن براہ راست دل کو مخاطب کرتا ہے اور دل ہی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ پیشگی آگاہی یا الہام، دماغ کے کمپیوٹر پر ظاہر نہیں ہوتا بلکہ یہ سب کچھ یعنی الہام بےچینی یا مسرت کا احساس دل کو ہی ہوجاتا ہے۔ انسان کو ہر ایک پیغام دل کے ذریعہ ہی ملتا ہے اور وہ انسان جو دل کی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا وہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے کچھ بھی دیکھا ہے۔ لہٰذا وہ شخص انتہائی خراب اور بےکار مصنوعی لالچ والی زندگی کو ہی دیکھ سکتا ہے۔ ایسا ہی دل مہر شدہ دل کہلاتا ہے، کیونکہ وہ دل نہ دل کی سچائی کو جانتا ہے نہ نیکی کو دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی نیک بات سن سکتا ہے اس کے بر خلاف جو شخص خدائی راز کا دل کی کھڑکی سے مشاہدہ کرتا ہے وہ اللہ کی کبریائی اس کی صناعی اور اس کی قدرت کا ملہ کو اپنے سامنے موجود پاتا ہے ایسے شخص کو دنیا کی ہر شے اللہ کی حمد وثناء کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے لیکن مہر شدہ دل، پردہ پڑی آنکھیں اور بہرے کان اس تمام خوبصورتی اور خدائی عظمت کو نہ محسوس کرسکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ اس پاکیزہ موسیقی کو سن سکتے ہیں جو قدرت کی ہر پیدا شدہ چیز اللہ کی بڑائی میں تسبیح کر رہی ہے۔ ایسے ہی بیوقوف انسانوں کے لئے بہت بڑے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ موت کے بعد ملنے والا ہے۔
Top