Mafhoom-ul-Quran - An-Noor : 30
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
قُلْ : آپ فرما دیں لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومون مردوں کو يَغُضُّوْا : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظُوْا : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں ذٰلِكَ : یہ اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : باخبر ہے بِمَا : اس سے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ ان کے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے۔
کچھ اور اخلاقی آداب تشریح : معاشرے کی اخلاقی معاشرتی اور تمدنی برائیوں سے بچانے کے لیے چند اور اصول بتائے جا رہے ہیں جو کہ شرم و حیا قائم کرنے اور برے راستوں کو بند کرنے کا موجب ہیں۔ نگاہیں اللہ کی دی ہوئی ایسی نعمت ہے کہ اگر اس کو ٹھیک استعمال کیا جائے تو نعمت ورنہ زحمت کیونکہ ہر چیز آنکھوں کے ذریعے ہی دل میں اتر جاتی ہے اور اسی کے مطابق انسان کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اسی لیے حکم ہوا کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یعنی پردہ اور ستر پوشی کا سخت حکم دیا گیا ہے یہاں عورتوں کے لیے زیادہ تاکید اور بڑی وضاحت سے ان رشتہ داروں کے نام بتا کر وضاحت کردی گئی ہے کہ سوائے ان خاص عزیزوں کے باقی تمام مردوں سے پکا پردہ کریں۔ بعض لوگ چہرے کو پردے میں شامل نہیں کرتے اگر چہرے کا پردہ نہیں تو پھر عورت کی زینت کیا ہے ؟ چہرے کا پردہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اور اپنی چال ڈھال بات چیت سج دھج سے ہرگز کوئی ایسا عمل نہ کریں کہ جس سے دیکھنے والوں کے دل میں کسی بھی قسم کا کوئی شیطانی خیال پیدا ہو۔ یعنی معاشرے میں سے بیشمار گناہوں کا سد باب کردیا گیا ہے لباس کا تعین بھی کردیا گیا ہے مردوں کے لیے اور عورتوں کے لیے بھی لباس ایسا ہونا چاہیے کہ جس سے جسم سے کوئی بھی پوشیدہ حصہ ننگا نہ ہو اور نہ ظاہر ہو۔ کیونکہ اس سے انسانی سفلی جذبات ابھرتے ہیں اور یہی سفلی جذبات ہی انسان کو بد راہ کرتے ہیں اور پھر اس گمراہی اور بدراہی سے ہی تمام برائیوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے، لہٰذا اس بنیاد کو ہی ختم کردیا گیا کہ لباس ایسا پہنو کہ جس سے انسانی عظمت ‘ حسن کردار اور شرم و حیا کا مظاہرہ ہو، یعنی نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ غیر اسلامی ممالک کی بدنصیبی ‘ بےسکونی اور گمراہی کا سبب ہی عریانی ہے۔ اسی لیے تو وہاں جانوروں والا جنسی معاشرہ ہے اور عورت کی عظمت اور قدروقیمت کوڑیوں کے برابر ہے۔ عورت انتہائی سستی اور بےوقعت ہو کر رہ گئی ہے۔ اور پھر وہاں کی عورت خوش ہے کہ اس کو آزادی ملی ہوئی ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ اس کا سکون عزت اور آبرو سرعام نیلام ہو رہی ہے۔ ہر اچھی بری نظر اس کے حسن کو دھندلا رہی ہے۔ جب کہ اسلام نے عورت کی حفاطت کے لیے پردہ کا حکم دے کر اس کو ہر ہر بلا سے باقاعدہ تحفظ دے دیا ہے۔ اور یہی اصل آزادی ہے۔ پردہ کے احکامات سورة الاحزاب میں 5 ہجری کو نازل ہوئے تھے پھر یہ واقعہ افک غزوہ بنی المصطلق سے واپسی پر پیش آیا جو کہ 6 ہجری میں ہوا۔ بہرحال سورة النور کی یہ آیات پردہ کے بارے میں پہلے نازل ہوئیں۔ پوری طرح شرعی پردہ کے تمام احکامات انشاء اللہ سورة احزاب میں دیکھیں گے۔ یہاں مختصراً صرف اتنا ہی بتایا گیا ہے جو کہ سورة نور میں آیا ہے۔ یعنی عورتوں کو چاہیے کہ اپنے دوپٹوں سے اپنے سینے چھپائے رکھیں جسم کے اعضاء اور بنائو سنگھار کسی پر ظاہر نہ کریں سوائے بھائی ‘ بھتیجا ‘ بھانجا ‘ لونڈی ‘ غلام اور نابالغ بچوں کے۔ باقی تفصیلات آگے آئیں گی ان شاء اللہ۔ آخر آیت میں توبہ کے دروازے کا ذکر ہے جو بھول چوک سے ہونے والے گناہوں کے لیے ہر وقت کھلا ہے اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں۔ ” اے ایمان والو اللہ کے سامنے سب مل کر توبہ کرو تاکہ تم بھلائی پائو۔ ( سورة نور آیت : 31 ) غرض پردہ ایک مضبوط ڈھال ہے عورت کے پاس برائیوں اور دنگا فساد سے بچنے کا۔
Top