Mafhoom-ul-Quran - An-Noor : 34
وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیے اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اٰيٰتٍ : احکام مُّبَيِّنٰتٍ : واضح وَّ مَثَلًا : اور مثالیں مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَلَوْا : گزرے مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَمَوْعِظَةً : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں نازل کی ہیں اور جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کی خبریں اور پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے۔
اللہ کے نور مثال اور مرد لوگوں کی تعریف تشریح : ان آیات میں اللہ کے اس صفاتی نام نور کی مثال دی گئی ہے ایک ایسے روشن، خوبصورت ترین چراغ کے ساتھ جس میں تیل بھی بہترین زیتون کے درخت کا پڑتا ہے۔ زیتون کے درخت کئی قسم کے ہوتے ہیں مگر بہترین درخت وہ ہوتا ہے جو کھلی فضا اور کھلی جگہ میں ہوتا ہے۔ اس کا تیل کھانے کے لیے اور جلانے کے لیے بہترین ہوتا ہے۔ زیتون کا درخت اس کا پھل اور اس کا تیل انسان کے لیے بےحد مفید شفاف اور صحت کے لیے بہترین غذائیت رکھتا ہے۔ اللہ کے نور کی تعریف کرنا بڑی مشکل بات ہے بہرحال اس وقت کے بہترین چراغ سے اللہ نے خود اپنے نور کو تشبیہ دی ہے۔ ہم تو صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی تعریف انسان کے بس کی بات نہیں صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ زمین و آسمان ان کا وجود ان کا کاروبار یعنی کائنات کا روشن ہونا اور نظام کائنات کا چلتے چلے جانا یہ سب اللہ کے نور کی ہی بدولت ہے۔ اللہ نے اپنے نور کی مثال جو لوگوں کو سمجھانے کے لیے دی ہے وہ بہترین ہے۔ ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کے نور سے ایمان کی روشنی پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ ہدایت پاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں راہ راست پر چلاتا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے نور ایمان نور ہدایت دیتا رہتا ہے۔ یہ تو اس کی خاص مہربانی ہے کہ وہ اس قندیل کو کس کے دل میں اور کس کے گھر میں روشن کرتا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے مومن کا دل اور اللہ کا گھر یعنی پاک صاف بہترین جگہ جس کو مسجد کا نام دیا گیا ہے منتخب کیا ہے۔ مومن کے دل کی تعریف تو یوں کی گئی ہے کہ وہ دنیا کی کسی چیز کی وجہ سے اللہ سے غافل نہیں ہوتا۔ نماز کی پابندی کرتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔ اور آخرت کے خوف سے ہر وقت ڈرتارہتا ہے۔ اور یہ سب کچھ خلوص نیت سے کرتا ہے۔ اور پھر پاک گھر کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ مساجد اللہ کے گھر ہیں ان میں ہر وقت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اس کی تسبیح و تقدیس کی جاتی ہے۔ اس لیے اس کی پاکی ‘ صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے جس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہاں دنگا فساد بیہودہ باتیں اور شر انگیز گفتگو ہرگز نہ کی جائے کہ جس سے مسجد کا احترام مجروح ہو۔ مسجدیں بنانا ‘ ان کو سجانا ‘ ان کو صاف ستھرا رکھنا اور ان کا احترم کرنا بالکل واجب اور فرض ہے۔ پھر وہ گھر بھی قابل احترام ہیں جہاں اللہ کا نام کسی بھی صورت میں لیا جائے۔ ایسے گھروں پر اللہ کی خاص رحمتیں برستی ہیں اور ایسے لوگوں کو اللہ اپنے خاص فضل و کرم سے نوازتا ہے جن کے دل نور ایمان سے روشن ہوتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ فرماتا ہے ” تاکہ اللہ ان کو ان کے اعمال کا اچھابدلہ دے اور اپنے فضل سے زیادہ بھی دے اور اللہ جس کو چاہتا ہے بےحساب رزق دیتا ہے۔ ( سورة النور آیت :38 ) دعا ہے : اے اللہ ہمارے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ آمین
Top