Mafhoom-ul-Quran - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جارہا ہے تو تمہاری (چھوٹی موٹی) برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کردیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے
بڑے گناہوں سے بچو تشریح : سورة النساء کی ابتداء ہی میں تمام انسانوں کو بتا دیا گیا کہ تم حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا (علیہا السلام) کی اولاد ہو، اس لیے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال اسی جذبہ اور خلوص سے رکھو جس طرح بھائی بہن کا خیال رکھا جاتا ہے، پھر کچھ تفصیلات بیان کی گئیں اور خیال رکھنے کے لیے قانون بتا دیئے گئے کہ انسانوں کو تکلیف نہ ہو، اس میں یتیموں، عورتوں، میراث (میت کا چھوڑا ہوا مال، ) رشتہ داروں کے حقوق بتائے گئے، پھر نکاح، مہر، وصیت، قرض، اللہ کی حدود، سزا، توبہ، مجرموں سے سلوک، ماؤں کا احترام، لونڈیوں کے مسائل، جان و مال کی حفاظت کے مسائل غرض زندگی کے بیشمار اصول بتا دیئے گئے کہ جن پر عمل کرکے انعامات و درجات ملیں گے اور بد عملی کے مطابق سزا ملے گی۔ آیت 31 میں ایک خاص انعام کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر تم بڑے گناہوں سے اپنے آپ کو بچا لو گے تو چھوٹے چھوٹے گناہ اللہ رب العزت بالکل معاف فرما دیں گے اور عزت و احترام کا درجہ ملے گا جو کہ جنت الفردوس کی صورت میں ہوگا۔ بڑے گناہوں اور چھوٹے گناہوں کے بارے میں درجہ بندی احادیث کی کتابوں میں بتائی گئی ہے۔ جبکہ اس کی درجہ بندی تو ممکن ہے مگر تعداد ہرگز ممکن نہیں (معذرت) درجہ بندی ہم اس طرح کرسکتے ہیں کہ ایک بچہ سوچتا ہے آج میں اپنی کلاس کے بچہ کاربڑ، پنسل یا کتاب ضرور چرا کر اپنے گھر لے آؤں گا۔ چوری کرنے سے پہلے اس نے منصوبہ بنایا یہ گناہ ہوگیا پھر اس نے چوری کے مال کو سنھبالنے کا منصوبہ بنایا یہ گناہ ہوگیا اس کی سوچ گناہ گار ہوگئی۔ پھر اس نے اس چوری کی چیز کو چھپانے کا، والدین، استاد اور کلاس کے بچوں کو دھوکہ دینے کا منصوبہ بنایا، لیکن جب وہ اپنے اس منصوبہ پر عمل کرنے لگا یعنی چوری کرنے لگا تو اس کے ضمیر نے اس کو خبردار کردیا کہ یہ گناہ ہے اور وہ چوری کرنے سے باز آگیا۔ اس طرح اس نے بڑے گناہ سے اپنے آپ کو بچا لیا تو اللہ رب العزت نے اس کے وہ تمام چھوٹے گناہ جو چوری کرنے سے پہلے کئے یعنی سوچا اور منصوبہ بنایا یہ سب معاف کردیئے، لیکن اگر وہ چوری کا عمل کرلیتا تو پھر سوچنا منصوبہ بنانا یہ بھی سزا میں شامل کرلیے جاتے۔ تو اس بات کا انعام ضرور ملے گا جو اس نے شیطان کو شکست دے کر اپنے آپ کو بڑے گناہ سے بچا لیا۔ گویا شیطان کی بات نہ ماننا اور اپنے ضمیر کی بات مان کر برائی سے بچ جانا یہ بھی اللہ رب العالمین کو بےحدپسند ہے اور اس کا اجر ضرور ملتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : آنکھ کا زنا ہے، کان کا زنا ہے، زبان کا بھی اور ہاتھ پاؤں کا بھی، پھر شرمگاہ اس کی تصدیق کردیتی ہے یا تکذیب۔ (صحیح بخاری) گویا آنکھ کا زنا غیر محرم کی طرف دیکھنا، پاؤں کا اس کی طرف چل کر جانا، زبان کا غیر محرم عورت سے شہوانی گفتگو کرنا، ہاتھوں کا زنا غیر محرم عورت کو چھونا اب اگر زنا اس سے صادر ہوجاتا ہے تو باقی چھوٹے گناہ بھی برقرار رہیں گے اور اگر بچ جاتا ہے تو چھوٹے گناہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے سے معاف کردیے جائیں گے بشرطیکہ وہ نیک اعمال بھی بجا لانے والا ہو اور یہ نیک اعمال اس کے چھوٹے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔
Top