Mafhoom-ul-Quran - An-Nisaa : 39
وَ مَا ذَا عَلَیْهِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِهِمْ عَلِیْمًا
وَمَاذَا : اور کیا عَلَيْهِمْ : ان پر لَوْ اٰمَنُوْا : اگر وہ ایمان لاتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت پر وَاَنْفَقُوْا : اور وہ خرچ کرتے مِمَّا : اس سے جو رَزَقَھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِهِمْ : ان کو عَلِيْمًا : خوب جاننے والا
آخر ان لوگوں پر کیا آفت آجاتی اگر یہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے اور جو کچھ اللہ نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے اور اللہ تعالیٰ انہیں خوب جاننے والا ہے
کفار اور بخیل غور کریں تشریح : پچھلی آیات میں بخل کا ذکر کیا گیا ہے اصل میں ان یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو نہ صرف مال خرچ کرنے میں ہی کنجوسی کرتے تھے، بلکہ علم کے بارے میں بھی کنجوسی کرتے تھے وہ اس طرح کہ اصل مسئلہ لوگوں کو نہ بتاتے تھے حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کی آمد اور قرآن مجید کے بارے میں تورات میں صاف صاف بتایا گیا تھا مگر وہ اس بات کو لوگوں سے چھپاتے تھے اور خاص طور سے مسلمان جو مدینہ میں رہتے تھے وہ یہودیوں کو علم میں اپنے سے زیادہ سمجھتے تھے، اس لیے وہ نبی کریم ﷺ کے بارے میں تصدیق کے لیے یہودی علماء کے پاس جاتے تو یہودی علماء ان کو حقیقت سے دور رکھتے اور اپنے اس علم کو چھپاتے جو اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ان کو تورات کے ذریعے دے رکھا تھا۔ یوں اللہ رب العزت نے ان کی عادت یہ بتائی ہے کہ یہ شیطان کے ساتھی ہیں مال میں بھی اور علم میں بھی بخل کرتے ہیں ان آیات میں اللہ رب العالمین ان لوگوں پر افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کتنا ہی اچھا ہوتا اگر وہ پیغمبر کی ہدایات کو مانتے، اللہ پر ایمان لے آتے، آخرت پر ایمان لے آتے اور جو کچھ ان کو دیا گیا تھا اس میں سے اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرتے۔ ریاکاری، بدنیتی اور بخل سے اپنی عاقبت خراب نہ کرتے، شاید ان کا خیال ہے کہ وہ اللہ رب العزت کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ تو نیتوں تک سے واقف ہے کہ کون، کس نیت سے، کیا کر رہا ہے ؟ سب اس کی نظر میں ہے اس کے علم سے کوئی بات باہر نہیں۔ اب جو کچھ نافرمانیاں، کفر، بخل اور ظلم یہ کر رہے ہیں اسی کا تو بدلہ ان کو آخرت میں ملے گا ورنہ اللہ رب العزت کا رحم و کرم اور عنایات اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر کوئی شخص ایک ذرہ برابر بھی نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو کئی گنا زیادہ کرکے ثواب اور بہترین اجر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انتہائی مشفق، مہربان اور غفورورحیم ہے۔ وہ تو کسی انسان کو دکھ اور تکلیف میں مبتلا نہیں رکھنا چاہتا۔ دنیا میں مشکلات آتی ہیں تو ہمارے اپنے برے اعمال کی وجہ سے آتی ہیں۔ آخرت میں جہنم میں جگہ ملے گی تو وہ بھی ہماری اپنی غفلت، نافرمانی اور ضد کی وجہ سے ملے گی۔ کیونکہ انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً رسول اور انبیاء بھیجے جاتے رہے ہیں۔ تاکہ انسان برے راستوں سے بچ کر نیکی کا راستہ اختیار کرے اور دنیا و آخرت میں ہر طرح کی بھلائیاں حاصل کرکے اللہ کا مقبول بندہ بن سکے۔ اس کی رحمت، برکت اور بخشش تو ہر وقت ہر بندے کیلئے جوش میں رہتی ہے، وہ تو تھوڑی سی نیکی کا بدلہ اپنے پاس سے کئی گنا کرکے دیتا رہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا میں زہد اختیار کرو اللہ تم سے محبت کرے گا جو لوگوں کے پاس ہے اس سے بےرغبت ہو جاؤتو لوگ تجھ سے محبت کریں گے۔ (سنن ابن ماجہ)
Top