Mafhoom-ul-Quran - Al-Maaida : 104
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا١ؕ اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے تَعَالَوْا : آؤ تم اِلٰى : طرف مَآ : جو اَنْزَلَ اللّٰهُ : اللہ نے نازل کیا وَاِلَى : اور طرف الرَّسُوْلِ : رسول قَالُوْا : وہ کہتے ہیں حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی مَا وَجَدْنَا : جو ہم نے پایا عَلَيْهِ : اس پر اٰبَآءَنَا : اپنے باپ دادا اَوَلَوْ كَانَ : کیا خواہ ہوں اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ دادا لَا : نہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہوں شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَهْتَدُوْنَ : اور نہ ہدایت یافتہ ہوں
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس قانون کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آئو پیغمبر کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ باپ دادا ہی کی پیروی کئے چلے جائیں گے، خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں نہ سیدھی راہ پر ہوں۔
غلط عقائد تشریح : ان آیات میں بت پرستوں کی ایک بری رسم کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے حلال چیزوں کو حرام کرلیا جاتا تھا، مثلاً کسی جانور کا دودھ پینا اس لیے چھوڑ دیتے کہ یہ دودھ کسی بت کے نام پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جیسا کہ آج کل بھی کسی پیر، فقیر اور دیوتا کے نام پر جانور چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اس سے کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ اٹھایا جائے گا۔ اسی طرح اسلام سے پہلے اہل عرب بھی کچھ جانور آزاد چھوڑ دیا کرتے تھے اور انہوں نے ان کے مختلف نام رکھے ہوئے تھے، مثلاً بحیرہ اس اونٹنی کو کہتے تھے، جسے ہر قسم کی خدمت سے آزاد کرکے کھلا چھوڑ دیتے تھے اور اس کا دودھ اپنے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے۔ سائبہ اس اونٹ یا اونٹنی کو کہتے تھے جو کسی منت کے پورا ہونے پر آزاد پھرنے کے لیے چھوڑ دی جاتی تھی۔ وصیلہ وہ اونٹنی ہے جو پہلی بار بھی مادہ جنے اور دوسری بار بھی، ایسی اونٹنی کو بھی وہ بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے۔ حام وہ اونٹ جو دس اونٹوں کا باپ بن چکا ہو یعنی بوڑھا ہوچکا ہو اسے بتوں کے نام پر بطور سانڈ چھوڑ دیا جاتا تھا۔ نشانی کے طور پر ان جانوروں کا کان چیر دیا کرتے تھے تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ نذرانے کے طور پر چھوڑا ہوا جانور ہے۔ پھر یہ بھی کہتے کہ اس سے بت خوش ہوتے ہیں اور اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔ یہ تو اللہ پر جھوٹا بہتان ہے اور اللہ رب العزت ان لوگوں کو بالکل بیوقوف اور عقل سے خالی لوگ قرار دیتے ہیں اور پھر جب بھی ان لوگوں کو اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے راستوں کی طرف بلایا جاتا تو صرف کہہ دیتے کہ ہم تو اپنے باپ دادا کے بتائے ہوئے طریقوں پر ہی چلیں گے۔ پھر ان سے کہا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ تمہارے باپ دادا کو ٹھیک راستہ یا طریقے کا پتہ ہی نہ چلا ہو تو کیا تم بھی آنکھیں بند کرکے انہی غلط راستوں پر ہی چلتے رہو گے ؟ یہ بات عقل کے خلاف ہے۔ اگر تمہیں کوئی ایسا راستہ دکھایا جا رہا ہے جو اچھا، سیدھا اور نجات کا راستہ ہے تو کیا تم اتنی عقل بھی نہیں رکھتے کہ سوجھ بوجھ سے کام لے کر باپ دادا کے اختیار کئے ہوئے غلط عقیدوں کو چھوڑ کر اچھے، پاکیزہ اور صاف عقیدے اختیار کرسکو۔ یہ تو گمراہی پر قائم رہنے کا ایک بہانہ ہے ورنہ عقل سے کام لینے والے لوگ نیکی اور بدی کی اصلیت سے واقف ہو کر اپنا راستہ خود اختیار کرتے ہیں اور آئندہ لوگوں کے لیے بھی قابل اطاعت مثالیں چھوڑتے ہیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔
Top