Mafhoom-ul-Quran - At-Talaaq : 8
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِیْدًا١ۙ وَّ عَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا   ۧ
وَكَاَيِّنْ : اور کتنی ہی مِّنْ قَرْيَةٍ : بستیوں میں سے عَتَتْ : انہوں نے سرکشی کی عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا : اپنے رب کے حکم سے وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسولوں سے فَحَاسَبْنٰهَا : تو حساب لیا ہم نے اس سے حِسَابًا : حساب شَدِيْدًا : سخت وَّعَذَّبْنٰهَا : اور عذاب دیا ہم نے اس کو عَذَابًا نُّكْرًا : عذاب سخت
اور بہت سی بستیوں کے رہنے والوں نے اپنے رب اور اس کے پیغمبروں کے احکام سے سرکشی کی تو ہم نے ان کو سخت حساب میں پکڑ لیا اور ان پر ایسا عذاب نازل کیا جو نہ دیکھا تھا نہ سنا۔
نافرمانوں کا علاج اور مومنو کو انعام تشریح : محمد یوسف اصلاحی صاحب نے بڑی پیاری بات لکھی ہے، ظاہر ہے اللہ کا یہ فرمان صرف رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے لیے ہے رہتی دنیا تک آدمی کے مومن ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ اسی پر ہے کہ رسول اللہ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کی سنت کو قرآن کے حکم کو ہر معاملے میں سند مانتا ہے یا نہیں۔ اللہ کے نزدیک اپنے دعوئے ایمان میں صرف وہی لوگ سچے اور مخلص ہیں، جو دل و جان سے قرآن و سنت کے فیصلے کو تسلیم کریں اور دل کی پوری آمادگی سے اس کی اتباع کریں،۔ (شعور حیات) اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کو رب ذوالجلال کی طرف سے جنت کی خوشخبری ہے۔ ایسا رب جو رب العٰلمین ہے سورة فاتحہ میں ہم 40 مرتبہ دن میں پڑھتے ہیں۔ کیا اس، العٰلمین، پر کبھی غور کیا ہے آیت 12 میں آیا ہے، سات آسمان پیدا کیے اور ویسی ہی زمینیں آخر تک،۔ یہ آـیت دوسری دنیاؤں میں زندگی کی موجودگی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ ازتفہیم القرآن۔ مولانا لکھتے ہیں۔ ، امریکہ کے رانڈ کارپوریشن نے فلکی مشاہدات سے اندازہ لگایا ہے کہ زمین جس کہکشاں میں واقع ہے صرف اسی کے اندر تقریباً 60 کروڑ ایسے سیارے پائے جاتے ہیں جن کے طبعی حالات ہماری زمین سے بہت کچھ ملتے جلتے ہیں اور امکان ہے کہ ان کے اندر بھی جاندار مخلوق آباد ہے۔ (اکانومسٹ، لندن مورخہ 26 جولائی 1969) سلطان بشیر محمود صاحب لکھتے ہیں، جہاں تک ان دنیاؤں کی شکل و صورت کا تعلق ہے تو سورة طلا ق کی آیت مبارکہ 12 سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں اور ہماری دنیا میں مشابہت ہے۔ پھر مِثْلُھُنَّ کے کلمہ سے یہ صاف ظاہر ہے کہ کائنات میں جہاں کئی آسمان ہیں تو اسی طرح کئی زمینیں بھی ہیں اللہ تعالیٰ کا امر ان سب میں اپنے اپنے حساب کے مطابق نازل ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ہر کام ایک پروگرام کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ سبھی آباد ہیں، بلکہ اللہ کا امر ہر جگہ اس کی حکمت کے مطابق اترتا ہے۔ اور اترتا رہے گا۔ دسویں اور گیا رھویں صدی عیسوی کے اسلام کے عظیم فرزند امام غزالی (رح) کے مطابق، آسمانوں میں موجود دنیاؤں کے لوگ اس قدر ترقی یافتہ ہوسکتے ہیں کہ ان کا آپس میں میل جول ہو اور وہ ایک دنیا سے دوسری دنیا تک سفر کرتے ہوں اور آپس میں رابطہ کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہوں،۔ (رسائل امام غزالی ) ۔ موصوف لکھتے ہیں کہ، اس کی صداقت میں سورة فاتحہ نے انسان کی سوچ کو ایک ہی جست میں زمین سے آفاق تک پہنچا دیا۔ دراصل یہ سمجھنا کہ اتنی بڑی وسیع کائنات میں زندگی صرف اسی زمین پر ہے اللہ تعالیٰ کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے اس بات کو بار بار قرآن حکیم میں رد کیا گیا ہے۔ اس کی مطابقت میں سورة جاثیہ آیت 36 ۔ الشوری آیت 22 ۔ سورة رحمن 29 وضاحت کرتی ہیں،۔ (قیامت اور حیات بعد الموت) جدید سائنس دان اس مسئلہ کی تحقیق میں دن رات تجربات اور تحقیقات میں لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ قرآن نے تو اس حقیقت کو صاف الفاظ میں بیان کردیا ہے۔ دیکھیں اس سورت کی آیت 12، جس میں دوسری دنیاؤں میں زندگی کی موجودگی کا ذکر ہے۔ بہت جلد سائنس دان اس حقیقت کو پالیں گے کیونکہ یہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے کہ قرآن سائنس کی مطابقت نہیں کرتا بلکہ سائنس قرآن کی مطابقت کرتی ہے۔ بیکن نے کہا تھا، فلسفہ کا تھوڑا سا علم انسان کو دہریہ بنا دیتا ہے لیکن اس کی گہرائیوں میں اتر کر انسان یکسر خدا پرست بن کر نکلتا ہے۔ خلاصہ سورة الطلاق اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ اس نے عورتوں کے حقوق اور پرانی غلط رسموں کو توڑتے ہوئے مسلمانوں کو اس سورت میں طلاق کے ذریعے بہت سے مسائل سمجھا دیے ہیں تاکہ زندگی میں پیدا ہونے والی الجھنوں کو احسن طریقہ سے حل کرلیا جائے۔ اس سورت میں بہت بڑا مسئلہ طلاق کا حل کیا گیا ہے۔ اور حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت پر یقین رکھتے ہو تو ان تمام حدود پر خلوص نیت اور اللہ سے خوف کو دل میں رکھ کر سچائی اور انصاف کے ساتھ عمل کرو تو زندگی کی گاڑی اور اچھی چلے گی۔ اول تو طلاق بڑی بری چیز ہے مگر زیادہ برائی سے بچنے کے لیے اللہ نے اس کو حلال کیا ہے۔ اور اس بات پر زور دیا ہے کہ عورتوں کے ساتھ بہت نرمی کا سلوک کرو۔ طلاق دینے کے بعد بھی ان کو عدت ختم ہونے تک اپنے گھر میں پناہ دیں خرچہ پورا کریں اور ہرگز ان پر سخت کلامی تہمت یا ظلم و زیادتی نہ کریں۔ روا داری اور مہربانی سے پیش آئیں۔ حدود یہ مقرر کی گئی ہیں 1 عورت کو پاک ہونے کے بعد بغیر اس سے تعلقات قائم کیے پہلی طلاق دو ۔ اس وقت کے ختم ہونے سے پہلے مراجعت کرسکتے ہو۔ 2 دوسرے ماہ ماہواری سے پاک ہونے کے بعد بغیر تعلقات قائم کیے ہوئے دوسری طلاق دو ۔ اس کی مدت پوری ہونے سے پہلے اگر صلح کرنی چاہو تو کرسکتے ہو۔ 3 تیسرے ماہ ماہواری سے پاک ہونے کے بعد بغیر تعلقات قائم کیے ہوئے تیسری طلاق دو اس کی عدت پوری ہونے تک طلاق مکمل ہوگئی۔ عدت پوری ہونے تک گھر میں ہی رکھو اور عورت بھی رہے۔ اگر ناممکن ہو بدامنی کی وجہ سے تو پھر نکال دو ۔ 4 عدت کا وقت بڑی احتیاط سے شمار کرو۔ 5 ہر موقع پر دو گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ 6 اگر عورت بوڑھی ہے یا نابالغ ہے یا بیمار ہے تو پھر طلاق کی عدت شمار کرنے کے لیے تین مہینے اپنے حساب سے شمار کرلو۔ 7 اگر عورت حاملہ ہے تو پھر بچہ کی پیدائش تک اس کی رہائش کھانا پینا خاوند کے ذمہ ہوگا۔ اس کی عدت بچہ پیدا ہوتے ہی ختم ہوجائے گی۔ پھر بچہ کو دودھ پلانے کا مسئلہ ہے۔ اگر عورت بچہ کو دودھ پلانے پر راضی ہو تو اس کو اپنی حیثیت کے مطابق اجرت دی جائے اگر اس بات پر مصالحت مناسب طور پر نہ ہو سکے تو پھر مرد دودھ پلانے کے لیے کسی دوسری عورت کا بندوبست کرے تاکہ بچے کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ طلاق کے بارے میں تفصیلاً سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے۔ بہرحال ٹھہر ٹھہر کر تین دفعہ طلاق دینا یہ مسنون طریقہ ہے۔ اور اس میں بہتری کی صورت نکلنے کا بھی احتمال ہے۔ لیکن یہ بار بار تاکید کی گئی ہے کہ اس پورے معاملہ میں ہرگز کہیں بھی چالاکی، بد نیتی، ہوشیاری اور ظلم و زیادتی کو شامل نہ کیا جائے کیونکہ یہ پھر اللہ کے احکامات سے نافرمانی کے دائرے میں آجائے گا جو قابل سزا ہے اور یہ ہرگز مت سوچو کہ تمہاری نیت، عمل یا سوچ اللہ سے پوشیدہ ہے۔ ہر گز نہیں۔ جس اللہ نے اتنی بڑی کائنات بنائی۔ جس مـیں سات آسمان اور کئی زمین ہیں اور وہ ان سب کا بنانے والا چلانے والا علیم وخبیر اور عزیز و حکیم ہے بھلا تم اور تمہارے اعمال اس سے کیونکر چھپ سکتے ہیں۔ اگر کوئی کام بھی حدود سے نکل کر کرو گے تو سزا ضرور پاؤ گے ورنہ اللہ کے پیارے متقی پرہیز گار اور نیک لوگوں کے لیے آخرت میں بہترین ٹھکانے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے جو بالکل سچا اور پکا ہے۔ قرآن میں ہے، جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور ان کا ایمان گناہ سے آلودہ نہیں ہوا انہیں امن و سکون کی نعمت ملے گی۔ (انعام :83) (الحمد للہ سورة الطلاق مکمل ہوگئی)
Top