Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 14
وَّ رَبَطْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاۡ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلٰهًا لَّقَدْ قُلْنَاۤ اِذًا شَطَطًا
وَّرَبَطْنَا : اور ہم نے گرہ لگا دی عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اِذْ : جب قَامُوْا : وہ کھڑے ہوئے فَقَالُوْا : تو انہوں نے کہا رَبُّنَا : ہمارا رب رَبُّ : پروردگار السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین لَنْ نَّدْعُوَا : ہم ہرگز نہ پکاریں گے مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوائے اِلٰهًا : کوئی معبود لَّقَدْ قُلْنَآ : البتہ ہم نے کہی اِذًا : اس وقت شَطَطًا : بےجا بات
اور ہم نے ان کے دل مضبوط کردیئے تھے جب وہ لوگ (پختہ اور) مستعد ہوگئے،16۔ تو بولے ہمارا پروردگار وہی تو ہے جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے ہم تو اس کے علاوہ کسی معبود کو نہ پکاریں گے ورنہ پھر تو ہم بڑی ہی بیجا بات کے مرتکب ہوں گے،17۔
16۔ (اور دین حق سے انہیں نہ کوئی ترغیب اور طمع پھیر سکی اور نہ کوئی دھمکی اور تخویف بھی) ڈی سیس (دقیانوس) رومل کے زمانہ میں موحد مسیحیوں پر (جو پولوس کی مشرکانہ تعلیم سے متاثر نہیں ہوئے تھے) جو جو مظالم اور جبر وستم ہوئے تھے وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ (آیت) ” وربطنا علی قلوبھم “۔ یعنی ہم نے ہمت، صبر، ثبات و استقلال دیکر ان کے دل مضبوط کردیئے تھے۔ 17۔ ان سب اقوال سے جو بار بار اصحاب کہف کی زبان سے نقل ہوئے ہیں، یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ ہر طرح کے شرک سے بیزار اور توحید میں کامل وراسخ تھے، وہ مسیحی اگر تھے بھی تو صحیح معنی میں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نبی کے لائے ہوئے دین کے متبع تھے، نہ کہ پولوسی وتثلیثی نام نہاد ” مسیحیت “ کے ! (آیت) ” لن ندعوامن دونہ الھا “۔ اس انکار وتردید سے ظاہر ہورہا ہے کہ ان سے فرمائش شرک وبت پرستی کی کی جارہی تھی۔ (آیت) ” ربنا رب السموت والارض “۔ قدیم رومی مذہب میں زمین و آسمان کے مستقل دیوتا الگ الگ تھے۔ یہاں اسی کی تردید میں توحید کا اثبات ہورہا ہے۔
Top